عائشہ ‏کی ‏آواز ‏موجوں ‏میں ‏گم

عائشہ کی آواز موجوں میں گم 
رسم جہیز کی بڑھتی لعنت اور معاشرہ کی منافقانہ روش پر ایک چشم کشا تحریر
از قلم: محمد افروز رضا مصباحی
  چند دنوں قبل ریاست گجرات کی ایک خبر میڈیا میں وائرل ہوئی کہ عائشہ نامی مسلم لڑکی نے شوہر کی زیادتی کی وجہ سے گہرے پانی میں کود کر خود کشی کرلی۔ خود کشی سے قبل ایک ویڈیو بنائی جس میں اپنی زندگی کے تلخ تجربات کو شیئر کی اور مطالبہئ جہیز کے بوجھ تلے دبی اپنی زندگی کے درد وکرب کو بیان کرتے ہوئے خود کو موجوں کے حوالے کرکے اپنی زندگی کے باب کو بند کردی۔
  ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ہر ایک نے اپنے طور پر رنج و غم اور ہمدردی کے ساتھ پند و نصیحت کے پاٹھ پڑھانے کی کوشش کی کہ زندگی متاع عزیز تھی جسے حالات زندگی سے تنگ آکر ختم کردینا بزدلی تھی۔علاوہ ازیں کسی نے اسلامی تعلیمات کو پیش کیا،کسی نے زندگی سے لڑنے کا منتر شیئر کیا،کسی نے خودکشی کے حرام ہونے کا فتوی شیئر کیا،کسی نے غم و اندوہ میں ڈوب کر مرثیہ قلم بندکیا کسی نے شاعری کی جوت جگائی، کسی نے سماج کو بُرا بھلا کہا، کسی نے مرد ذات کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی، کسی نے جہیز کی بڑھتی لعنت پر قدغن لگانے کے لیے ارباب علم و فکر کو دعوت دے کرعلماء سے سوال کربیٹھے کہ اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری کیوں نبھائی نہیں جارہی ہے۔ الغرض جتنی زبانیں اتنی باتیں۔
  حیرانی و پریشانی میں باباجی کے پاس جا بیٹھا خاموش انداز میں بیٹھا دیکھ کر پوچھ بیٹھے کس رنج سے سابقہ پڑا؟کس نے دکھی کیا؟باعث رنج و ملال کیا ہے؟کچھ بولو اپنا منہ کھولو۔ ان کی باتیں سن کر عائشہ کی خود کشی اور اس پر ارباب عقل و دانش کی بے مہار تبصرہ اور دور کی لائی ہوئی کوڑی بھی پیش کردی نیز اس سارے مسئلے پر روشنی ڈالنے کی فرمائش کرڈالی۔باباجی نے ایک لمبی سانس لی اور گویا ہوئے،برخوردار:عائشہ زندگی کے کس کرب اور درد کے مراحل سے گزری وہ خوب جانتی تھی کچھ باتیں آخری ویڈیو میں دیکھنے سننے کو ملی۔ جس سے معلوم ہوتاہے زندگی عزیز تھی، شوہر سے محبت بھی تھی،جہیز کے مطالبے پر دکھی تھی، لیکن سسرال والوں اور شوہر کے مطالبہ ئ  جہیز پر باپ کی جانب سے دائر کردہ کیس سے بھی ناخوش تھی، زندگی کے اس موڑ پر پہنچ چکی تھی جہاں صرف اندھیر ا ہی اندھیرا نظر آیا۔ کوئی ایسی دوست،سہیلی،ماں،بہن یا کوئی سماج کا ہمدرد اسے نہ ملا جو اس کے غم کو غلط کرکے اسلامی تعلیمات اورخود کشی جیسے انتہائی قدم سے باز رکھ سکتا،ممکن ہے اگر کسی سے کہتی بھی تو اکثر یہ کہہ کر ٹرخا دیتے کہ تمہارا پرسنل معاملہ ہے حل تمہیں کو کرناہے۔ ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہونے اور عائشہ نام رکھنے پر اسے خودکشی کی قباحت اور اللہ کی ناراضگی کا کچھ نہ کچھ علم ہوگا لیکن زندگی کے جس موڑ پر وہ کھڑی تھی شاید اس کا احساس وہی کرسکے جسے کبھی اس نازک موڑ پر کھڑا ہونا پڑا ہو۔ساحل پر کھڑے لوگ ڈوبنے والے کو دیکھ کر یہی سوچتے اور کہتے ہیں کہ کوشش کرو،تیرنے کی کوشش کرو، ہاتھ پیر مارو اور بھنور سے نکلنے کی کوشش کرو،لیکن ڈوبنے والے کی کیفیت کیا ہوتی ہے اسے ساحل پر کھڑے ہوکر تماشا دیکھنے والے سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ خود کشی رب کی ناراضگی کو دعوت دیتی ہے یہ سبھی کو معلوم ہے لیکن منزل اور راستے کی چاہت رکھنے والے کے قدم ساتھ نہ دے تو عائشہ جیسے قدم اٹھا کر سماج کے مصلحین،جہیز کے مطالبین، بد ذات شوہر اوربدقماش سسرال والوں کے چہرے پر زناٹے دار تھپر رسید کرکے دنیا سے کنارہ کرلیتی ہے۔

برخوردار!تمہیں ملال ہے کہ لوگ اپنی بولی بول کر کوئی مغفرت کا طالب ہے کوئی جہنم کی وعید سناکر ڈوبی ہوئی لاش نکال کر داروغہئ جہنم کا کام انجام دینے کو تیار ہے۔لیکن سن لو! اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے بیٹی کی شادی کے موقع پر جہیز کو لعنت لعنت لعنت کی گردان کرنے والے بیٹے کی شادی کے موقع پر گردن کی نسیں پھلاپھلاکر طالبِ جہیز ہوتے ہیں،ہر طرح کی کمی کو ناقابل برداشت جرم قرار دے کر شادی کے منڈپ سے بیٹے کو اٹھاکر لے جاتے ہیں۔دریا برد ہونے والی کوبزدلی کا طعنہ دینے والا وہ شخص ہے جو نکاح کی دعوت میں چار اقسام کے کھانے کھاکر بھی شکوہ کرتانظر آتاہے کہ ”کھانے میں مزہ نہیں آیا“عائشہ کو مرنے کے بعد ہمت و شجاعت کے ساتھ زندگی کی لڑائی لڑنے کی نصیحت کرنے والے وہ منافق بھی ہیں جو اپنے بیٹے کی شادی کے موقع پر بیٹے کی پڑھائی پر خرچ کردہ رقم کی بھرپائی آنے والی بہو کے گھر والوں سے وصول کرکے بہو سے خدمت کی امید پر صبح نہار منہ چائے  بسکٹ کے انتظار میں رہتے ہیں،گھر کی عورتوں کا ذکر ہی کیا؟ ایک عورت دوسری عورت کی زندگی میں زہر گھولتی ہے، بہوکو ایک ٹانگ پر کھڑی دیکھنے کی تمنا رکھنے والی بیٹی کے سسرال والوں کی شکایت کرتے نہیں تھکتی، نندوں کو کپڑے،زیور،اور دیگر سامان میں سوائے عیب کے کچھ نظر نہیں آتا، گھر محلہ اور رشتے دارکی عورتیں بجائے دعائے خیر دینے کے تنقیدی نگاہیں سامان پر ڈال کر صرف یہ شمار کراتی ہیں کہ کمی اور خرابی کتنی ہے۔ 
  جہیز کامطالبہ کرنے والے کوئی جاہل گنوا ر،سماج ومعاشرے کی خرابی اور جہیز کی لعنت سے بے خبر لوگ نہیں ہوتے بلکہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جوظاہری دین دار،سر پر لمبی سی ٹوپی،عمامہ، چہرے پر لمبی داڑھی اور ہاتھ میں تسبیح کے دانے حرکت میں ہوں گے، حاجی ہوں گے،درجن کے حساب سے عمرہ کرنے والے،بات بات میں قرآن و حدیث کا حوالہ دینے والے، اصلاح معاشرہ پر کام کرنے والے، قوم کی فلاح و بہبود اور مسلم معاشرے میں پھیلی خرابی کو دور کرنے کا درد رکھنے والے ہوں گے، کسی تنظیم،تحریک یا این جی او کے رکن بھی ہوں گے۔عورتیں باحجاب،اور نماز روزہ کے ساتھ تسبیح پھیرنے والی ہوں گی لیکن یہ سب ظاہر ی لبادہ ہے اصل صورت یہ ہوگی کہ شادی کے ڈیکوریشن پر دس لاکھ خرچ کرائیں گے، دس طرح کی ڈشیش ہونی چائیے، دلہے کے پورے گھر والوں کو کپڑے ہونی چاہئے۔جس کرو فر سے وہ شادی کے ہال میں ملیں گے کہ بعض مہمان پہچان نہ پائیں کہ یہ دلہے کے باپ، بھائی، بہنوئی یا رشتہ دار ہیں، آخران کے کپڑے،شیروانی اورجوتے بھی کسی کے خون کی بوتل فروخت ہونے کے بعدہی تیار ہوا ہوگا۔
لباس اہل تقوی پر نہیں کچھ منحصر واعظ
کیا کہوں کہ کس کس بھیس میں دیکھا ہے انساں کو
  ”جہیز ایک لعنت ہے“ یہ ایک ”پھینکو“ جملہ بن کر رہ گیا، کیا دین دار کیا دنیا دار، اس رنگ میں ماو شما سبھی رنگے ہوئے ہیں۔ جہیز کی آگ میں جھلستی دلہن اور اس کے گھر والے کی نیلام ہوتی عزت سے ہی ہمارے نفاق زدہ معاشرے کا پیٹ بھرتاہے۔جہیز کے لین دین میں مسلم معاشرہ جس حال کو پہنچ چکا ہے اسے دیکھتے ہوئے عائشہ کی قربانی بہت چھوٹی معلوم ہوتی ہے۔ روزانہ کتنی بہوئیں گھروں میں آہوں اور سسکیوں کے درمیان زندگی کے پہاڑ کو اٹھائے جی رہی ہے۔ بعض صبر کے ساتھ جی لیتی ہیں بعض عائشہ بن کر اللہ کی ناراضگی کو دعوت دے کر ڈوب مرتی ہیں۔
  معاشرے میں تعلیم تو ہے تربیت کا فقدان ہے۔ یہ فقدان صرف دلہا بننے والے جوان میں نہیں بلکہ ہر اس گھر میں ہے جہاں شادی کے بعد بہو لانے کی تیاری چل رہی ہے۔ دلہابنے شخص کو عام طور پر کپڑے اور گاڑی کی طلب ہوتی ہے اس کے علاوہ جتنے بھی مطالبات ہوتے ہیں وہ گھر کی عورتوں اور بڑے صاحب اور گھر میں راج کرنے والے دامادوں اور بہنوں کا ہوتاہے کہ میرا بیٹا لاکھوں میں ایک ہے۔اتنا اچھا داماد ملنے پر پانچ لاکھ/دس لاکھ روپے کیش نہ دے سکو تو کیا منہ لے کر ہمارے گھر پر آئے ہو؟ یونہی جدید تعیشاتِ زندگی نے لڑکیوں کے دماغ کو بھی عرش پر پہنچادیا،پچیس سالہ، اٹھائیس سالہ لڑکے کے اندروہ خوبیاں اور دولت کے انبار تلاش کرتی ہیں جو ان کے والد اور رشتے کے رئیسوں نے اپنی پوری زندگی کو  جھلسانے کے بعد زندگی کے آخری پڑاؤ میں حاصل کیا۔ 
  کھلے طور پر سبھی کو یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ ہم اپنے معاشرے کے منافق ہیں۔جہیز کے لین دین میں ظاہر و باطن بالکل متضاد ہے۔ایک عائشہ کی خود کشی پر میڈیا میں لوگوں نے اپنی حاضری درج کروائی،افسوس، حسرت، ندامت، مسلم معاشرے کی بگڑتی صورت حال پر اپنے جذبات کا اظہار کیا لیکن کیا کوئی یہ یقین دلا سکتاہے کہ میری وجہ سے کوئی دوسری عائشہ اس طرح کی اقدام خود کشی کرکے خود کو موجوں کے حوالے نہیں کرے گی؟

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی