ہاشم شناسی: اسلاف شناسی کی اعلیٰ مثال

 

ہاشم شناسی: اسلاف شناسی کی اعلیٰ مثال

مرتب:حامد اکمل  
تبصرہ نگار:  محمدافروز رضامصباحی،گلبرگہ۔
گل و برگ کی سرزمین اپنی علمی فضا اور علم دوستی کی بنیا د پر پوری علمی دنیا میں پہچانی جاتی ہے۔خواجہ بندہ نواز علیہ الرحمہ کی آخری آرام گاہ ہونے کی وجہ سے اقصائے عالم میں اس سرزمین کو شہر ہ حاصل ہے۔ یہاں کی زرخیز زمین نے سیکڑوں لعل و گوہر دنیائے علم و ادب کو دئیے جس کی علمی،ادبی اورفنی حیثیت اہل ہنرکے نزدیک مسلم ہے۔ گلبرگہ حیدرآباد کرناٹک کا ایک معروف شہر ہے جہاں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیاکے ذریعہ بھی یہاں کے ہنرمندوں نے اپنی علمی صلاحیت و قابلیت کی وجہ سے علم دوست لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔یہاں سے کئی اردو روزنامے شائع ہوتے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا میں بھی یہاں کے لوگوں نے اپنا حصہ محفوظ رکھاہے۔  
 
سنیئر صحافی جناب حامد اکمل ایڈیٹر ”روز نامہ ایقان ایکسپریس“کا نام پرنٹ میڈیا میں معروف ہے۔ ان کی متنوع تحریریں ان کے اپنے اخبار کے علاوہ ملک کے دیگر رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ موصوف اپنی زندگی کی ۰۷/ ویں بہاریں دیکھ رہے ہیں۔موصوف کی زندگی اردو ادب کی خدمت،اخبارات میں اداریہ اور سیاسی،سماجی،معاشی،مذہبی اورملی مسائل پر اہم مضامین لکھتے گزررہی ہے۔دیگر کتابوں کے علاوہ نثر میں ”گلبرگہ میں شعر و ادب“ کی مشترکہ ترتیب گلبرگہ کی شعری و ادبی تاریخ کا حسین مجموعہ ہے۔  علاوہ ازیں ایک اچھے شاعر بھی ہیں،ذوق سخن عمدہ ہے۔ان کا ایک شعری مجموعہ”تشبیہ“ بھی منظر عام پر آچکاہے۔ 
 
زیر نظر کتاب”ہاشم شناسی“ حامد اکمل کا اپنے استاد محمد ہاشم علی(پ:۱۳۹۱ء۔ف:۶۱۰۲ء) کی بارگاہ میں خراج عقیدت ومحبت ہے۔ ہاشم علی گلبرگہ کی رنگ و بو سے اٹھنے والی علم پرور شخصیت گزری ہے جو اپنے علم و کمال اور دکنی زبان و ادب کی خدمات کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔ تعلیم و تدریس سے جڑکر علم کی روشنی پھیلاتے رہے۔ایل ایل بی کی تکمیل کے بعد کئی سالوں تک وکالت بھی کی لیکن تدریسی خدمات کی چاہت میں وکالت کے پیشے کو خیرآباد کہہ دیا۔انہیں دکنی زبان و ادب سے بڑی دلچسپی تھی۔دکنی کی مذہبی شاعری اور متصوفانہ ادب سے گہرا شغف تھا۔انہوں نے اپنی تحقیق کا موضوع دکنی ہی کو بنایا اور سلسلہ بندہ نواز کے صوفیا کی خدمات کو منظر عام پر لایا۔دکنی زبان سے خاص دلچسپی رکھنے والے گلبرگہ کے محققین کے بارے میں جناب حامداکمل لکھتے ہیں ”گلبرگہ میں دکنی تحقیق کے سب سے بڑے علم بردار ڈاکٹرمحمد ہاشم علی رہے ہیں۔ڈاکٹر وہاب عندلیب کو بھی دکنی تحقیق سے شغف رہاے۔ حال ہی میں حضرت خواجہ بندہ نواز کی سوانح اور تعلیمات پر ان کے مضامین کا مجموعہ منظر عام پر آیااس میں دکنی متصوفانہ روایات پر بھی محققانہ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ گلبرگہ کے ایک جواں سال محقق ڈاکٹر حامد اشرف کی تحقیقی کتاب”دکنی کے لوگ گیت حیدر آباد کرناٹک کے حوالے سے منظر عام پر آئی ہے“(ص:۲۱)
حامد اکمل کی مرتب کردہ کتاب ”ہاشم شناسی“پروفیسر محمد ہاشم علی کے مضامین اور احباب و تلامذہ کے تاثرات کا مجموعہ ہے۔ مرتب نے انتساب میں لکھاہے”اردو داں طبقے کی نئی نسل کے نام‘اس امید کے ساتھ کہ ان کے والدین ان کی اردو تعلیم کا بھی اہتمام کریں گے“۔ انتسابی جملے سے معلوم ہوا کہ مرتب اردو کے فروغ اور نئی نسل میں اس کی تعلیم عام کرنے کے لیے کیسا دردمندانہ جذبہ رکھتے ہیں۔
 پیش لفظ کے عنوان سے مرتب جناب حامد اکمل نے دکنی زبان و ادب کی خدمات ریاستی و غیر ریاستی سطح پر ہونے والے کام اور محققین کا تذکرہ کیاہے۔ ساتھ ہی اپنے استادمحترم کی دکنی زبان و ادب سے لگاؤ،تعلق اور خدمات پر روشنی ڈالی ہے۔”من آنم“ کے عنوان سے پروفیسر ہاشم علی کی زبانی ان کے حیات و خدمات مختصراً نقل کیاگیاہے۔ گلبرگہ کے جواں سال محقق ڈاکٹر غضنفر اقبال نے ہاشم علی صاحب کاسوانحی خاکہ پیش کیاہے۔  
کتاب دو حصے میں منقسم ہے۔پہلے حصے میں ”مضامین محمد ہاشم علی“ کے عنوان سے پروفیسر ہاشم علی صاحب کے علمی وفکری مضامین کو جگہ دی گئی ہے جبکہ دوسرے حصے میں ”رفتید ولے نہ ازدل ما“کا عنوان دے کر ان کے تلامذہ و احباب کے تاثرات کو زینت صفحات بنایاگیاہے۔
”مضامین محمد ہاشم علی“ کے تحت ”دکنیات“ کا عنوان دے کر اس کے ضمن میں پانچ مضامین ’عادل شاہی دور میں اردو شاعری،کلمۃ الحقائق:دکنی نثر کاقدیم ترین مستند نقش،خلاصۃ الرویت اور اس کا مصنف،ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ اور دبستان بیجاپور کے صوفیہ کی دکنی خدمات،دکنی تحقیق کے ارتقا میں فرزندان جامعہ عثمانیہ کا حصہ“ شامل ہیں۔ 
تعلیم و تدریس کے تحت دو مضامین ”اردو ذریعہ تعلیم کے تدریسی مسائل اور ان کا حل،دکنی نثر کی تدریس کا طریقہ کار اور مسائل“ شامل ہیں۔ 
”تصوف“ عنوان کے ضمن میں ”تصوف کی ابتدا اور اس کا ماخذ،حضرت خواجہ بندہ نواز اور سلسلہ بندہ نوازکا مسلک تصوف،حضرت خواجہ بندہ نواز کی مسلک عشق و محبت،پیامِ بندہ نواز کی اہمیت“پانچ مضامین کو جگہ دی گئی ہے۔
اردو ادب“عنوان کے تحت ”غالب کی ادائے خاص، فانی اور ان کے ناقدین،پطرس بخاری،باب تحقیق پر ایک نظر(ماہنامہ شاعر کے ہم عصراور ادب نمبر)،اردو تنقید کے نئے رجحانات،وہاب عندلیب میرے بھائی“جیسے چھ مضامین شامل ہیں۔ تبصرے و تاثرات کے تحت چار مضامین،ریڈیو ٹاک کے ضمن میں ایک مضمون کو جگہ دی گئی ہے۔ 
’رفتید ولے نہ ازدل ما‘کا عنوان دے پروفیسر ہاشم علی کے تلامذہ واحباب کے نذرانہئ عقیدت کو بشکل مضامین یکجا کئے گئے ہیں، تفصیل حسب ذیل ہیں:
۱۔پروفیسرمحمد ہاشم علی(کچھ یادیں کچھ باتیں)۔ڈاکٹر وہاب عندلیب۔(۲)۔پروفیسر محمد ہاشم علی کی دکنی خدمات۔۔پروفیسر م ن سعید۔ 
۳۔سب کہاں کچھ لالہ و گل میں۔۔ڈاکٹر جہاں آرا بیگم۔(۴)۔شجر سایہ دار۔۔ڈاکٹر حلیمہ فردوس۔
۵۔پروفیسر محمد ہاشم علی،علمی و ادبی اور تدریسی خدمات۔۔ڈاکٹر عبدالکریم تماپوری،بنگلور(۶)میرے ابّا...اردو کے شیدائی۔۔ڈاکٹر سمیہ فردوس
۷۔میرے استادِمحترم۔۔ڈاکٹر فریدہ خانم۔(۸)۔پروفیسر محمد ہاشم علی۔۔ریاض احمد،بنگلور
۹۔پروفیسر محمد ہاشم علی۔۔ریاض احمد بوڑے۔(۰۱)۔استاد محترم۔پروفیسر ڈاکٹر محمد ہاشم علی۔۔عبدالقدیر 
۱۱۔ماہر دکنیات ڈاکٹر پروفیسر محمد ہاشم علی۔۔محمد غوث الدین قاسمی 
پروفیسر ہاشم علی کی کتاب”میراں جی شمس العشاق“پر ایک تبصرہ ڈاکٹر وہاب عندلیب کاہے جبکہ دوسرے تبصرہ نگار ڈاکٹر راہی قریشی ہیں،ان دونوں کو بھی اس کتاب میں شامل کیاگیاہے۔ آخر میں عبدالرحمن خان گوہر تری کیروی،میسور کا منظوم خراج عقیدت کتاب کی زینت بنی ہے۔ 
حامد اکمل کی مرتب کردہ کتاب”ہاشم شناسی“ کے ذریعے ان کے متفرق مضامین یکجاہوگئے۔جوقاری ہاشم علی صاحب تحریر پڑھنا چاہے ان کے لیے یہ کتاب مفید ہوگی۔یونہی ڈاکٹر ہاشم علی کے چاہنے والوں نے ان کے لیے اپنے جن جذبات و احساسات کو الفاظ کاجامہ دیاہے وہ بھی اس کتاب میں جمع ہوگئے۔استاد محترم کی یاد باقی رکھنے کے لیے اس سے بہتر اور کیا ہوسکتاہے کہ ان کی تحریر کو سجاسنوار کر آنے والی نسل کے لیے محفوظ کردیاجائے تاکہ اسلاف شناسی کے ساتھ شاگرد کا اپنے استادکے لیے قلبی جذبات کو محسوس کرسکے جو  اب آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جارہی ہے۔   
   
 

  


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی