تمہیں کامیاب ہو اگر صاحب ایمان ہو

 

دین اسلام خدا کا تمام مذاہب عالم میں سب سے زیادہ پسندیدہ دین ہے یہاں تک کہ اگر کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین اختیار کرے تو خدا کو پسند نہیں،وہ خدا کا مقرب بند ہ نہیں ہوسکتا اور نہ آخرت کی ابدی مسرتوں سے ہمکنار ہوسکتاہے۔انسانی گروہ میں وہ گروہ خدا ئے وحدہ لا شریک کو زیادہ محبوب وپسندیدہ ہے جو دین اسلام سے وابستہ ہو۔ اس طور سے امت مسلمہ خدا کی پسندیدہ جماعت ہوئی کہ اللہ کے فرامین پر عمل کرتے ہوئے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو بصدق دل قبول کیا،دین اسلام کو اپنا دین مانتے ہوئے اللہ ا وراس کے رسول کی جناب میں سر خمیدہ کرکے دنیا و آخرت کی فوز و فلاح، کامیابی و کامرانی،مسرت وشادمانی کے در وا کروالئے، اسی مبارک جماعت کے لئے رب کا ئنات کا فرمان ہے؛

 وَلاَ تَہِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْن۔ترجمہ :اور نہ سستی کرو نہ غم کھاؤ تمیں غالب آؤگے اگر ایمان رکھتے ہو۔

اللہ تعالی نے مسلمانوں  اس کے صاحب ایمان ہونے کی وجہ سے نوید غلبہ و ظفر کی بشارت دی ایک مسلمان کی کامیابی اس کے صاحب ایمان ہونے میں ہے دنیا و آخرت کی صلاح و فلاح کا حقدار اسی وقت ہوگا جب اس کا دل جذبہ ایمان سے لبریز ہو،اقرار باللسان کے ساتھ تصدیق بالقلب بھی حاصل ہو۔

ایمان کیا ہے؟ اجمالا اللہ تبارک وتعالی کی ذات و صفات پر ایمان لاتے ہوئے اس کے تمام احکام کو قبول کرنا۔ تفصیلا اللہ، ملائکہ، آسمانی کتابیں، رسولان عظام، یوم آخرت، تقدیر کے اچھے برے اور بعد موت دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لانااور حق جاننا ہے۔جو بندہ اللہ و رسول پر ایمان رکھتاہو وہ اس کے احکام کو ضرورتسلیم کرے گا، اس پر عمل کرے گا،شریعت مطہرہ کا پاسدار ہوگا۔

آج دنیا میں مسلمانوں کی تعداد اربوں میں ہے۔سبھی اللہ پر ایمان کا دعوی کرتے ہیں،رسول سے محبت کا دم بھرتے ہیں،فی زمانہ مساجد کی تعداد اقصائے عالم میں بڑھتی جارہی ہے،حجاج کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہورہاہے،دین و سنت کی طرف راغب کرنے کے لئے چھوٹی بڑی ہزاروں تنظیمیں سرگرم عمل ہیں، اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے ہزاروں طریقے آزمائے جارہے ہیں،قدیم طرز تعلیم کے علاوہ جدید طرز تعلیم کے مطابق اسلامی پیغامات عام کئے جارہے ہیں باوجود اس کے دنیا میں سب سے زیادہ پسماندہ قوم مسلمان ہے۔ تعلیمی میدان میں پچھڑے ہوئے ہیں،بعض مسلم ممالک میں تیل کی دولت کے باوجود مسلمانوں کی بدحالی مفلوک الحالی اور کسمپرسی کا یہ عالم ہے کہ ہزاروں جانیں بھوک کی شدت برداشت نہ کرکے موت کے منہ میں چلے گئے۔دنیا کی دوسری سب سے بڑی قوم ہونے کے باجود اس کا کوئی عالمی دبدبہ نہیں ہر جگہ سے ہوا اکھڑ چکی ہے کوئی پرسان حال نہیں بے مائیگی کا یہ عالم کے دنیا میں مسلمانوں پر ہورہے بہیمانہ ظلم و تشددکے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہیں،آپسی خانہ جنگی اور ناچاقی نے کہیں کا نہ چھوڑا،باہم دست و گریباں ہونے کی وجہ سے دشمنوں کو بیچ بچاؤ کے بہانے قوم کو ذلیل و رسوا کرنے کا موقع فراہم کیا۔

مسلمانوں کی موجودہ صورت حال ڈاکٹر اقبال کے ان اشعار کے مصداق ہے؛

تم صورت میں ہو نصاری تمدن میں ہنود 

یہ مسلماں ہیں جسے دیکھ کے شرمائے یہود

تم سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو یہ تو بتاؤ مسلمان بھی ہو

دنیا کے سارے مسلمان صاحب ایمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں ہر کوئی خدا پر ایمان و ایقان کا دعوی دار ہے لیکن حالات اس کے بر عکس ہے ورنہ مسلمانوں پر پسماندگی و درماندگی مسلط نہ ہوتی،زمانے بھر میں ذلیل و رسوا نہ ہوتے،اعدائے دین کے مقابلے سمند ر کے جھاگ کے مانند نہ ہوتے، دشمنوں کے بہکاوے میں نہ ہوتے، اپنے بھائیوں کی گردن نہ کاٹ رہے ہوتے،علاقائی عصبیت کے جنون میں اپنوں کا بائیکاٹ نہ کررہے ہوتے یہ سارے افعال رزیلہ واعمال قبیحہ صاحب ایمان کا شیوہ نہیں۔صاحب ایمان کی صفت جسم کے مانند ہے جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہوتو ساراجسم درد میں شریک ہوتاہے    

دنیا کے مختلف خطے میں بسنے والے مسلمانوں کی صحیح تصویر وہی ہے جو قرآن عظیم نے بیان کی ہے۔ قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَکِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیْمَانُ فِیْ قُلُوبکمُ۔ ترجمہ: گنوار بولے ہم ایمان لائے تم فرماؤ تم ایمان نہ لائے۔ہاں یوں کہو کہ ہم مطیع ہوئے۔اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی