علم و ادب کا ایک اور ستارہ غروب ہوگیا

 


علم و ادب کا ایک اور ستارہ غروب ہوگیا

ادیب شہیر علامہ محمد ادریس رضوی( ایم اے)کی رحلت پر قلبی تاثرات

از قلم:محمد افروز رضا مصباحی،گلبرگہ

گزشتہ چہار شنبہ کو محب گرامی مولانا کاشف رضا شاد مصباحی کا فجر کے وقت کال آیا لیکن رسیو کرنے سے پہلے ہی کٹ گیا بعد میں کال لگاکر خیریت دریافت کی تو بتایا والد گرام محمد ادریس رضوی اس جہان فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون

خبر سن کو قلب محزون و غمزدہ ہوگیا،انہیں تعزیت پیش کی اور رابطہ منقطع کردیا۔موبائل ہاتھ ہی میں تھا اور سوچوں میں گم ہوگیا۔علامہ ادریس رضوی سے چند برسوں میں ہونے والی ملاقاتیں باتیں اور علمی محفلوں کی خوشگوار یادیں ذہن کے دریچے سے جھانکنے لگی۔

علامہ ادریس رضوی کا وطن ریاست بہار کے ضلع دربھنگہ کے ایک چھوٹا موضع ”مدلمن“ تھا۔ان کی پیدائش 20/ جولائی 1958 کو الحاج محمد منیف کے گھر میں ہوئی ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی پھر حفظ و قرأت اور درس نظامی کی چند درجات تک کی تعلیم حاصل کی۔عصری تعلیم کے لحاظ سے ایم اے کی سند حاصل کی۔مدرسہ ایجوکیشن عربی و فارسی بورڈ بہار سے استانیہ،فوقانیہ اور مولوی کا امتحان پاس کیا۔ ذریعہ معاش سے وابستہ ہوئے تو کئی مقام پر امامت و خطابت سے منسلک رہے۔1988ء میں کلیان مہاراشٹر کی سنی جامع مسجدپتری پل پہنچے،امامت و خطابت کی ذمہ داری سنبھالی۔تقریباً 28/ سالوں تک اسی مسجد کے گوشے میں رہ کر خدمت دین متین کرتے رہے۔ 2014ء میں اس مسجد کی امامت و خطابت کے منصب پر رہتے ہوئے پچیس سال مکمل کرنے پر ایک بڑے پروگرام کا اہتمام کیا گیا۔جس میں آپ کی علمی،قلمی،ادبی و لسانی خدمات پر ”امام احمد رضا ایوارڈ“ بھی تفویض کیا گیا۔

حضور مفتی اعظم ہند علامہ الشاہ مصطفےٰ رضا بریلوی علیہ الرحمہ سے شرف بیعت حاصل کی۔ علامہ رضوی کا زیادہ وقت لکھنے پڑھنے میں وقت گزرا۔ حجرہئ مسجد کی تنہائی کسی کو شب و روز خواب خرگوش کی نیند سلاتی ہے لیکن علامہ رضوی شب کی تنہائی اور دن کی بیداری میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیا جو اخلاف کے لیے قابل تقلید ہے۔شعر و شاعری تصنیف و تالیف اور تبلیغ دین متین ان کی زندگی کا حاصل رہا۔ حجرہ کی تنہائی میں نظم و نثر کی مختلف اصناف علمی نقوش ثبت کرتے رہے۔نثر نگاری، شاعری،تحقیق،تنقید،تبصرہ نگاری،تذکرہ نویسی،سفر نامہ نگاری،علم عروض کی گتھیوں کو سلجھاتے ہوئے آخر میں خود نوشت ”ایک مٹھی یادیں“لکھ کر قلم کو ایک طرف رکھ دیا۔

علامہ رضوی کی پہلی تصنیف ”ماہتاب رسالت کی جلوہ ریزیاں“ 1990ء میں شائع ہوئی۔ دسمبر 2009ء میں انگریزی ایڈیشن ساؤتھ افریقہ سے شائع ہوئی۔اس کے علاوہ مختلف اوقات میں نثری کتب”کنزالایمان اور امام احمد رضا،کلام راہی میں صنائع بدائع،کنزالایمان اور امام احمد رضا،گلبرگہ سے حیدرآباد تک، تجلیات قلم،گلستان رضا،امام احمد رضا کے مبلغین،حرم سے حرم تک،عالمی برادری کا وحشت ناک معاشرہ،مطالعہ معاشرت،خطبات رضوی،رسول اللہﷺ کی ماں جیسی اہم تصنیفات و تالیفات منظر عام پر آئیں۔

شاعری:۔ علامہ رضوی نے شعر و سخن کی بھی مجلس آراستہ کی۔ استاد شاعر غلام مرتضی راہی فتح پوری نے شاعری کا مشورہ دیا تو انہیں سے شعرو سخن میں صلاح و مشورہ لیتے رہے۔شب کی تنہائی،تہجد کی ادائیگی کے بعد شعروسخن کی لڑی پرونے میں مصروف ہوجاتے۔ان کا پہلا تضمینی مجموعہ ”نغمات بخشش“ 2002 میں غوث الوریٰ اکیڈمی کلیان سے شائع ہوا۔حمد و مناجات کا مجموعہ”وسیلہئ بخشش“ 2005ء،تضمینات کا مجموعہ”سبیل بخشش“ 2008ء اور صدائے بخشش المعروف”دیوان بخشش“ 2012ء میں منظر عام آئیں۔

علامہ رضوی بحیثیت ماہر عروض: مولانا ادریس رضوی نہ صرف شاعر تھے بلکہ ایک ماہر عروض داں بھی تھے۔ علم بیان، علم معانی،علم بدیع پر ان کی گہری نظر تھی۔ جس کے ثبوت میں ان کے مجموعہ کلام ”دیوان رضوی“ کو دیکھا جاسکتاہے۔علاوہ ازیں علم بیان و بدیع میں ان کی مہارت و قابلیت کا منہ بولتاثبوت ”کلام راہی میں صنائع و بدائع“ بھی ہے کسی بھی فن پارے کو فن کی میزان پر پرکھنا اوران میں پوشیدہ صنائع و بدائع کی تلاش امر مشکل ہے۔موجودہ دور میں علم و فن روبہ زوال ہے اس کے ماہرین بہت کم نظر آتے ہیں۔بقول ڈاکٹر وحید انجم ”کلام راہی میں صنائع و بدائع“ موضوع اور مواد کے اعتبار سے منفرد ہے، اس طرح کی کتابیں میری نظر سے بہت کم گزری ہیں۔ دور حاضر میں ایسی کتابوں کا چلن مفقود ہورہاہے،ایسی کتابیں نایاب نہیں تو کمیاب ضرورہیں“(کلام راہی میں صنائع و بدائع۔ از: محمد ادریس رضوی۔ص:۶۱)

علامہ رضوی نے مختلف مجلات کے خصوصی شماروں میں مختلف شعرا و ادبا ء پر جو تحریر قلم بند کیے ہیں ان میں کسی شاعر کی شاعری کا ہیئتی،فنی، عروضی اور بدیعی مطالعہ و تجزیہ کیا گیاہے جس کی فہرست دراز ہے۔علامہ موصوف کی تقریباً ڈیڑھ درجن کتب اشاعت کے مراحل سے گزر کر مارکیٹ میں آچکی ہے جبکہ اتنی ہی تعداد میں منتطر اشاعت ہیں۔

صحافت:علامہ رضوی کا رشتہ صحافت سے بھی مختلف رسائل و جرائد میں مضامین و مقالات شائع ہوتے رہے۔ اس کے علاوہ 1999ء میں غوث الوریٰ اکیڈمی کلیان کے زیر اہتمام سہ ماہی جریدہ”لطافت“ کے نام سے جاری ہوا۔ اس جریدہ کی اشاعت مولانا محمد ادریس رضوی کی ادارت میں ہوئی۔ ایک ہی شمارہ کے بعد”لطافت“ بند ہوگیا۔2009ء میں اخبار کی شکل میں چار ورقی ماہنامہ ”المختار“ جاری ہوا۔ اس کے ایڈیٹر علامہ ادریس رضوی منتخب ہوئے۔جس کے صرف تین شمارے شائع ہوسکے۔اس کے بعد سہ ماہی کردیاگیا۔سہ ماہی المختار کا سب سے اہم کارنامہ ”امام علم وفن نمبر“ ہے جو خواجہ مظفر حسین رضوی علیہ الرحمہ کی بلند پایہ شخصیت اور ان کی دینی و علمی خدمات پر مشتمل ایک ضخیم نمبر ہے۔ممبئی سے شائع ہونے والے ”پیغام رضا“ کے بھی علامہ رضوی تین سالوں تک ”مدیر مسؤل“ رہے۔

امامت و خطابت کے منصب پر رہتے ہوئے اتنے اہم علمی و فنی کام انجام دیا جس سے اندازہ ہوتاہے کہ کام کرنے والا شخص جہاں رہے اگر علمی ذوق و جذبہ ہے تو کام کرنا دشوار نہیں۔اگر تساہلی و کاہلی کا خوگر ہوتو ساری آسائش کی کے باوجودشاکی ہی رہے۔ 

 علامہ ادریس رضوی علیہ الرحمہ سے راقم کی پہلی ملاقات 2011میں عرس اعلیٰ حضرت کے موقع پر ”تنظیم اہلسنت گلبرگہ“ کے پلیٹ فارم سے منعقدہ طرحی مشاعرہ بنام”ایک شام امام احمد رضا کے نام“ کے موقع پر ہوئی۔ اس مشاعرہ کا مصرعہ طرح ”عشق صادق ہوتو سرکار نظر آتے ہیں“ علامہ موصوف نے ہی دیاتھا۔اس مشاعرے کی صدارت بھی انہیں کے ذمہ تھی۔شہر و بیرون شہر سے آنے والے شعراء نے کلام سناکر اس پروگرام کو کامیاب کیا۔ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے یہی ایک یادگار پروگرام ہوسکا پھر دیگر تنظیموں کی طرح نام اور کام سے معدوم ہوگئی۔علامہ رضوی سے اسی پروگرام میں مختصر ملاقات ہوئی۔ پھر چند ماہ بعد گلبرگہ کے ہی ایک مذہبی پروگرام میں شرکت کی غرض سے تشریف لائے نوری کتاب گھر درگاہ روڈ پر تقریباً دو گھنٹے تک ساتھ رہنے اور علمی فیضان سے نہال ہونے کا موقع ملا۔

علامہ رضوی کرونامہاماماری سے قبل گلبرگہ میں طبیعت کی ناسازی اور علاج و معالجہ کے سلسلے میں اپنے صاحبزادہ ماہر عروض و قوافی مولاناکاشف رضا شاد ؔ مصباحی کے یہاں تقریبا ایک سال تک مقیم رہے۔مسجد اکبری آزاد پور روڈ سے قریب ہی رہنے کی وجہ سے کبھی کبھی ان کے پاس چلاجاتاجہاں علامہ موصوف اپنے تجربات و مشاہدات کے علاوہ مختلف امور پر اظہار خیال کرتے۔چونکہ علمی شخص تھے۔قلم سے ان کا رشتہ بڑا مضبوط و مستحکم تھا۔درجنوں کتابیں منظر عام آچکی ہیں۔کئی کتابیں منتظر اشاعت ہیں۔ایک ملاقات میں کہنے لگے:علمی و ادبی جتنا کام ہوسکا کرچکاہوں کچھ باقی ہیں۔آپ ایک کام کریں بہت سی شخصیات پر میں لکھ چکا ہوں آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اب کرنے کاکام یہ ہے کہ آپ مجھ پر لکھیں (تین سال پہلے ان کے دو سفر نامے ”گلبرگہ سے حیدرآباد تک۔حرم سے حرم تک“ کو سامنے رکھ کر ان کی سفر نامہ نگاری پر ایک طویل مضمون”علامہ ادریس رضوی بحیثیت سفرنامہ نگار“ قلم بند کیا تھا جسے انہوں نے بنگاہ تحسین دیکھا تھا۔یہ مضمون اب تک غیر مطبوعہ ہے) پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگے”مفت کا کام نہیں رہے گاچائے پانی کا خرچہ مل جائے گا“ میں بھی مسکرا کر رہ گیا۔ ارادہ کیا تھا کہ فرصت ملی تو ان شاء اللہ ان کی خواہش کا احترام کیا جائے گالیکن یہ نہ معلوم تھا کہ علامہ رضوی اتنی جلدی خالق حقیقی سے جا ملیں گے،اپنے چاہنے والوں سے اتنی جلد بچھڑ جائیں گے۔ مرضی مولا از ہمہ اولیٰ۔ جو کوئی دنیا میں آیا ہے اسے جاناضروری ہے۔کون کب قید حیات سے آزاد ہوکر راہی عدم ہوجائے،کہنا مشکل ہے۔

گلبرگہ شہر سے انہیں خاص انسیت تھی۔ بارگاہ خواجہ بندہ نواز علیہ الرحمہ سے خاص عقیدت تھی۔ شہر کے علمی و ادبی شخصیات سے ان کے علمی تعلقات استوار تھے۔ڈاکٹر عبدالحمید اکبر، ڈاکٹر منظور دکنی، ڈاکٹر وحید انجم،ڈاکٹر ماجد داغی،سنیئر صحافی حامد اکمل سے ان کے گہرے مراسم تھے۔کتابوں پر تقریظ،مقدمہ،دعائیہ کلمات، فنی جائزہ اور کتابوں پرتبصرے بھی ہوتے تھے۔ 

اخیر میں دعا ہے کہ مولائے قدیر اپنی شان کریمی کے مطابق ان کے ساتھ معاملات فرمائے ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ان کے پسماندگان بطور خاص صاحبزادگان کو والد کے ورثہ کی حفاظت کا جذبہ عطا فرمائے۔ علامہ رضوی اپنے بعد علمی سرمایہ چھوڑ کر گئے ہیں انہیں منظر عام لایاجائے تو علم و ادب میں بہترین اضافہ ہوگا۔ 


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی