کیا جزاک اللہ کہنا کافی نہیں؟

 کیا جزاک اللہ کہنا کافی نہیں؟ 

محمد افروز رضا مصباحی

جب کوئی شخص ہمارے ساتھ بھلائی کرتا ہے تو ہم جواب میں " جزاک اللہ "کہہ دیتے ہیں ۔یہ ایک طرح سے دعا ہے کہ اللہ آپ کو اس کا بدلہ عطا فرمائے ۔لغت میں جزاک اللہ  کے چند معانی ملتے ہیں :

اللہ تعالیٰ تم کو اس کی جزا دے، خدا تجھے (نیک) صلہ دے (تحسین کلام یا حسن سلوک کے شکریے کے طور پر)

1۔(عربی) خدا تجھے (نیک) صلہ دے۔ ۲۔(طنزاً) شاباش مرحبا۔ صد رحمت۔ جب کسی کا عمدہ کلام سنتے اور اس کو پسند کرتے ہیں تو کہتے ہیں۔ جزاک اللہ۔ کبھی کوئی شخص حسن سلوک کرے تو اس کے شکریہ میں بھی بولتے ہیں۔

”جزاك الله خیرًا“  ایک دعائیہ جملہ ہے، احسان اور بھلائی کرنے والے سے اظہار شکریہ کے لئےنیز اس کے احسان کے اچھے بدلے  کی ادائیگی کے لیے۔ اس دعا  کی ترغیب حدیث میں وارد ہوئی ہے،  حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  رسول کریم ﷺ نے فرمایا:  جس شخص کے ساتھ کوئی احسان کیا جائے اور وہ احسان کرنے والے کے حق میں یہ دعا کرے  ”جزاك الله خیرًا“ (یعنی اللہ تعالیٰ تجھے اس کا بہتربدلہ دے) تو اس نے اپنے محسن کی کامل تعریف کی ۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ "جزاک اللہ خیرا "کہنا از روئے شرع عمل خیر ہے۔اپنے مسلمان بھائی کے لئے کلمہ شکر ادا کرنا کار مستحسن ہے۔ہمارے درمیان یہ جملہ زبان زد عام و خاص ہے ۔جب کوئی یہ جملہ ادا کرے تو عام طور سے اچھے معنی ہی مراد لیے جاتے ہیں ۔ہر چند کہ لغت میں طنز کے طور پر بھی ذکر کیا گیا ہے ۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے (1)"جزاک اللہ "کے ساتھ "خیرا" کا لفظ لگانا کیا یہ ضروری ہے؟ (2) اگر نہ لگائیں اور صرف"جزاک اللہ "کہہ دیں تو کیا غلط ہوگا؟(3)۔ اس جملہ سے اچھے بُرے دونوں معانی ظاہر ہوتے ہیں؟ 

آئیے ان تینوں سوالیہ جملے کا جائزہ لیتے ہیں، یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ درست کیا ہے؟ 

(1)۔جزاک اللہ "کے ساتھ "خیرا" کا لفظ لگانا کیا یہ ضروری ہے؟ 

حدیث پاک میں روایت موجود ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس شخص کے ساتھ کوئی احسان کیا جائے اور وہ احسان کرنے والے کے حق میں یہ دعا کرے  ”جزاك الله خیرًا“  تو اس نے اپنے محسن کی کامل تعریف کی ۔

اس حدیث میں "خیرا"موجود ہے ۔خیراً کے استعمال سے جملے میں مبالغہ کا معنی پایا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ "اللہ تمہیں بہترین بدلہ عطا فرمائے "

(2) اگر خیراً نہ لگائیں اور صرف"جزاک اللہ "کہہ دیں تو کیا غلط ہوگا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ صرف جزاک اللہ کہہ دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔کیونکہ عام طور سے جیسی گفتگو کا ماحول ہوتا ہے ایسے ہی جملے ادا کیے جاتے ہیں ۔لغت کے اعتبار سے بھی اوپر بتایا جاچکا ہے کہ کبھی جوابی طور پر یہ جملہ استعمال ہوتا ہے کہ طنز کےطور پر بھی۔لہذا گفتگو کا ماحول اور حالات کیا ہیں اسی اعتبار سے معنی سمجھنا چاہیے۔

اتنا ہوسکتا ہے کہ جزاک اللہ کے ساتھ "خیراً" کا لاحقہ معنی کی زیادتی کو بیان کرتا ہے ۔لیکن اصل معنی میں کوئی فرق نہیں آئے گا، بغیر خیراً کے بھی جزاک اللہ کہہ دیا جائے تو معنوی اعتبار سے بھی کوئی خرابی لازم نہیں آئے گا۔

آخری سوال

(3)۔ اس جملہ سے اچھے بُرے دونوں معانی ظاہر ہوتے ہیں؟ 

مضمون کے شروع میں گزر چکا ہے کہ جزا کا معنی : بدلہ، صلہ اور اجر کے آتے ہیں 

اجر کا پہلا معنی اردو میں یعنی "بدلہ" اچھے اور بُرے دونوں معانی میں مستعمل ہیں ۔یونہی دوسرے تیسرے معنی کا حال ہے ۔

لیکن ہمیں سمجھنا یہ ہے کہ ہم کس معنی میں استعمال کرتے ہیں اور سامع کس معنی میں لیتا ہے ۔جو لفظ ذو معنی یعنی ایک سے زائد معنی رکھتا ہو اسے قرینہ سے سمجھا جاتا ہے کہ کس معنی میں بولا گیا ۔جب جزاک اللہ کا معنی ہو تو عام طور سے اچھے معنی میں ہی لیے جاتے ہیں اور سمجھے جاتے ہیں ۔لہذا یہ کہنا کہ صرف جزاک اللہ کہنا درست نہیں، ایسا کہنا خود درست نہیں 

دوسری بات یہ ہے کہ ایک مسلمان یہ جملہ کسی مسلمان بھائی کے لئے استعمال کرے تو بہتر مفہوم لیا جائے نہ کہ مفہوم مخالف یا وہ معنی جس میں شر ہو، جو جملے شر میں استعمال بھی ہوتا ہو تو خیر کی جانب پھیر دیا جائے ۔جزاک اللہ معروف معنی "اللہ تمہیں بہترین بدلہ دے"میں مستعمل ہے، لہذا وہ معنی مراد نہ لیا جائے جو قرینہ سے سمجھا ہی نہ جاتا ہو۔ کوئی جزاک اللہ کہہ کر یہ مراد نہیں لیتا کہ اللہ تمہیں جہنم میں داخل کرے، تمہیں سزا دے، بُری موت دے، تجھے تباہ کردے وغیرہ ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی