لوگ ساتھ آتے گئے کارواں بنتا گیا
اُن چند اشخاص کا تذکرہ جنہوں نے جامعہ ضیائیہ فیض الرضا کے عروج و ارتقااور تعمیر و ترقی میں قربانیاں دیں جن کی خاموش خدمات کو ادارہ کی عمارت زبان حال سے سلام کرتی ہے
از قلم : محمد افروز رضا مصباحی
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر لوگ ساتھ آتے گئے کارواں بنتا گیا
جہان فقیہ اسلام نمبر کی کاپی پریس میں جارہی تھی اچانک یاد آیا کہ نمبر میں شامل مضامین کے قلم کاروں نے فقیہ اسلام کو کئی جہتوں سے یاد کیا ہے، ان کے علم و عمل، زہد و تقوی، اوصاف و کمالات ،اخلاق و احوال ،افکار و خیالات ،قلمی خدمات ،دعوتی و تبلیغی خدمات اور اسفار و مشاہدات پر مواد جمع کرنے کی سعی کی ہے۔تعمیری کاموں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ لیکن کیا فقیہ اسلام علیہ الرحمہ نے تن تنہامکتب فیض الرضا سے دارالعلوم فیض الرضا اورپھر جامعہ ضیائیہ فیض الرضا تک پہنچائے ؟ مسجد برکات رضا کے لیے زمین کی خریدی کی ،بنیاد ڈالی گئی اورکم مدت میں بن کر تیار ہوئی۔ کیا کسی دوسرے کا اس میں کوئی تعاون نہیں ہے؟ہے، ضرور ہے ۔کیا ان خاموش خدمات کرنے والے ،تعاون کرنےوالے ،محبت کرنے والے ،رازداری کے ساتھ ادارہ کی امداد کرنے والوں کو یاد نہیں کرنا چاہئے ؟ ضرور کیا جانا چاہئے ۔لہذا یہاںحضور فقیہ اسلام علیہ الرحمہ کے چند محبین، مخلصین، معاونین اور محبت کرنے والوں کا ذکر جمیل مقصود ہےجن کی خدمات روزروشن کی طرح ظاہر ہے۔ اس تاریخی نمبر میں ان کاذکر محفوظ ہوجائے،ان کی دینی خدمات کو سراہاجائے ، ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اوران کے دینی جذبات کی قدر کی جائے ۔عیاں رہے کہ چند ہی اشخاص کا ذکر مقصود ہے تمام چاہنے والوں کا ممکن نہیں ہے، جتنے لوگوں کے بارے میں میری معلومات ہے، یا مفتی صاحب قبلہ نے کبھی ذکر کیا انہیں لوگوں کے مختصر احوال کو ذیل میں احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
الحاج محمد تسلیم رضوی :۔
حضور فقیہ اسلام علیہ الرحمہ کے بردارصغیر الحاج محمدتسلیم رضوی عرف چھوٹے بابو تھے ،ان کی محنت وکاوش ،جدو جہد اور شبانہ روز کی انتھک محنتوں کا ثمرہ دارالعلوم فیض الرضا اور جامعہ ضیائیہ فیض الرضا ہے۔مسجد برکات رضا کی تعمیر و ترقی ان کی حسن کاری و پرکاری اور تعمیراتی کاموں میں باریک بینی ان کی قربانیوںکا عمدہ نمونہ ہے۔ادارہ اور مسجد کی ہر اینٹ ان کی محنت اور جدو جہد کی گواہ ہے۔
حضور فقیہ اسلام 1966 ء میں ناگپور گئے تو پھر وہیں کے متوطن ہوگئے یہاں آبائی وطن کی سار ی ذمہ داری حاجی تسلیم رضوی سنبھالے ہوئے تھے۔ ۱۹۷۹؍ میں جب مدرسہ فیض الرضا کی بنیاد رکھی گئی تو یہی بات سامنے آئی کہ سنبھالے گا کون ؟ گفت و شنید کے بعد مدرسے کی تمام تر ذمہ داری حاجی تسلیم رضوی کے سپرد کی گئی انہیں اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ مفتی صاحب باہر رہ کر اس کے تعمیر و ترقی کی راہ ہموار کریں گے اور حاجی صاحب یہاں کی دیکھ بھال کریں گے۔
مدرسہ فیض الرضا ددری کو ابتدامیں کئی مشکلات کا سامناکرنا پڑا کتنی بار اس کی دیواریں گرانے کی کوشش کی گئی چونکہ یہ ادارہ آبائی گھر سے ایک کلو میٹر دوری پر ددری گاؤں میں تھا آنا جانا مشکل ہوتا لیکن ابتدائی دنوں میں بڑی قربانیاں دینی پڑی ۔دیوبندیوں کی ضد تھی کہ یہاں بریلویوں کا مدرسہ تعمیر نہ ہو ۔1987 ء میں حالات نہایت خستہ ہوگئے روز روز کی مداخلت سے ادارہ سے جڑے تمام لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اب آر پار کا معاملہ ہونا چائیے ورنہ یہاں مدرسہ قائم نہیں ہونے دیاجائے گا ۔ وہ سال مدرسہ اور ناظم اعلیٰ کے لیے بڑا صبر آزما رہا۔لیکن آفریں ہے حاجی محمد تسلیم رضوی پر کے ایسے پر آشوب وقت میں ہمت و حوصلہ سے کام لیا قانونی چارہ جوئی کی جہاں ضرورت تھی قانونی سہارالیا ۔جہاں پنچایت یا بااثر لوگوں کی مداخلت سے کام بن سکتاتھا تو اس کا سہار الیا اور مدرسہ کے خلاف اٹھنے والے فتنے کاقلع قمع کیا ۔پھر مدرسہ ترقی کی راہ پر چل نکلاتو بہت سے وہ لوگ جو کبھی مخالفت پر کمر بستہ تھے حاجی صاحب کے شانہ بشانہ آکر کھڑے ہوگئے۔
مدرسہ فیض الرضاکی قدیم عمارت طلبہ کی بڑھتی کثرت کے سبب ناکافی ہونے لگی تو قدیم ادارہ سے جنوب میں ایک کلو میٹر کے فاصلے پر نئی عمارت کے لئے زمین خریدی گئی۔یہاں بھی آس پاس کے کھیت والوں کو بھڑکایاگیاکہ مدرسہ کے لئے زمنین فروخت نہ کیا جائے تو حاجی صاحب نے اپنی حکمت عملی سے ہر ایک کو اپنی طرف کرلیا جہاں کہیں رکاوٹ کا معاملہ تھا بڑی حسن تدبیر سے معاملہ حل کرلیا ۔
حاجی تسلیم رضوی ابتدا سے ادارہ کے ناظم اعلی رہے تاحیات ان کی نظامت رہی ۱۹۷۹ سے ۲۰۱۸ تک انتھک کوششوں سے ادارہ کو بام عروج عطا کیا ۔برادر اکبر مفتی عبدالحلیم صاحب قبلہ ان کے ہی ذمہ سارے کام چھوڑ کر اپنے دینی و تبلیغی سفر پر رہےیہاں کی ساری ذمہ داری ناظم صاحب انجام دیتے رہے۔
جامعہ ضائیہ فیض الرضا ددری کی جو فلک بوس عمارت نظر آرہی ہے۔ یہ انہیں کی مرہون منت ہے ان کے حسن انتظام کابہترین شاہکار ہے۔
حاجی تسلیم رضوی ایک خصوصیت یہ رہی کہ کس سے کیا کام لینا ہے کس طرح لینا ہے بخوبی جانتے تھے اور اس سے وہ کام بھی لے لیا کرتے ۔ موصوف پورے علاقے میں اپنی شناخت اور پہچان رکھتے تھے ددری کا کوئی بھی سیاسی یا سماجی کام ان کی شمولیت کے بغیر شاید ہی ہوتا رہا ہو۔ پورے شمالی بہار جہاں ادارہ جامعہ فیض الرضا کا نام ہے وہاں حاجی تسلیم رضوی کو جاننے والے ضرور ہیں ۔ ادارہ کے اساتذہ و طلبا میں یکساں مقبول تھے ۔پورے علاقے میںان کی اپنی شناخت تھی ۔2018ء میں ایک حادثے میں انتقال کرگئے ۔
مولانا شہاب الدین رضوی پنڈولوی: 1991 میں بحیثیت مدرس آپ کی تقرری ہوئی، پھر اپنی محنت و کاوش اور ایمانداری سے بانی مدرسہ اور ناظم مدرسہ کا دل جیت لیا، آپ کی تعمیری ذہن و فکر دیکھ کر نائب ناظم مقرر کیے گئے ۔جامعہ ضیائیہ فیض الرضا کی تعمیری کام کے وقت ان کی صلاحیت نکھر کر سامنے آئی، ناظم ادارہ حاجی تسلیم رضوی اگر ددری میں نہیں ہوتے تو ادارے کی ساری ذمہ داری آپ کی ہوتی، رمضان المبارک میں مچھلی پٹنم اندھرا پردیش مفتی صاحب نے تراویح کے لیے بھیجا تو تقریباً 32/سالوں تک مسلسل گئے، ادارہ کا چندہ جمع کرتے، اور مدرسے میں جمع کرتے،بہت سے لوگوں کوادارہ سے وابستہ کردیا۔ مسجد برکات رضا کی تعمیری کاموں میں بڑی تندہی کے ساتھ مسلسل لگے رہے،یہ مسجد چونکہ مفتی صاحب قبلہ کے خوابوں کی تعبیر تھی ، اس خواب کو زمینی حقیقت میں بدلنے میںمولانا شہاب الدین رضوی کی سعی پیہم کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ 2018ء میں ناظم اعلی حاجی تسلیم رضوی کے انتقال کے بعد بالاتفاق ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے، آپ کے ناظم اعلی بننے کے بعد جامعہ کے باؤنڈری کا کام انجام پایا ہے، جامعہ کی پرشکوہ عمارت آپ کے خلوص،لگن اور تعمیری ذہن کی گواہ ہے ۔ مسجد برکات کے ادھورے کام کو مکمل کرنے میں بڑی کوششیں کی جس سے یہ مسجد آج پورے آن بان شان کے ساتھ سبھی کو دعوت نظارہ دے رہی ہے ۔ادارہ کے زیر اہتمام کئی منصوبے ہیں جسے زمینی صورت وشکل دینا باقی ہے۔مولائے قدیر ان کے عزم و حوصلے کو مزید بال و پر عطا فرمائے،دیگر منصوبے کو عملی شکل دینے کے اسباب مہیا فرمائے۔ مولانا شہاب الدین رضوی کی خدمات لائق صد آفریں ہے ۔حضرت مفتی صاحب قبلہ کے معتمد خاص رہے، ان کے مشورے کے بغیر شایدہی کوئی کام ہوا ہو ۔اللہ پاک ان کو صحت و سلامتی عطا فرمائے ۔ادارے کے فروغ و ترقی میں غیب سے ان کی مدد فرمائے ۔
مفتی اشرف رضا مصباحی : ددری سے قریب ایک گاؤں باتھ اصلی ہے ،یہی ان کا آبائی گاؤں ہے ۔جامعہ اشرفیہ مبارک پورکے قدیم فارغین میں سے ہیں۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد ممبئی کے ہوکر رہ گئے ۔ادارہ شریعہ مہاراشٹر کے قاضی ، دارالعلوم حنفیہ رضویہ کے شیخ الحدیث ہیں ۔پابند شرع اور مسلک اعلٰی حضرت کے سچے ترجمان ہیں ۔بانی جامعہ نے ان کو ناظم تعلیمات بنایا تھا تاکہ تعلیم و تعلم کا نظم و نسق بہتر سے بہتر ہوسکے ۔ان کی کوششیں بھی بہت رہی ۔مفتی صاحب قبلہ کی ان سے زیادہ توقعات تھیں ۔ادارہ کو ان جیسے باوزن اور میدان ساز فرد کی سخت ضرورت ہے تاکہ فیض الرضا دن دوگنی رات چوگنی ترقی کے مناز ل طے کرسکے۔
مولانا ظفر امام اندولوی: 1991ء میں آپ کی تقرری ہوئی ،بعد میں صدر مدرس بنائے گئے، نظام تعلیم کو بہتر کرنے میں آپ نے کافی محنتیں کیں، آپ کے آنے کے بعد ہی درس نظامی کی کلاس رابعہ تک پہنچی ۔آپ نے 2006 تک ادارہ کے تعلیمی معیار کو بہتر کرنے اور سرپرست ادارہ مفتی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کے خوابوں کو زمینی شکل دینے میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر طلبا کو ادارہ کی جانب ملتفت کیا، 2006 میں ادارہ سے سبکدوش ہوئے ۔ان کی درسگاہ سے فیض یافتہ علماء کی فہرست دراز ہے،فی الحال سنگاچوری کے دینی ادارہ میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
ماسٹر ضمیر الحق حلیمی: ددری کے ہی متوطن ہیں ۔1992 میں دارالعلوم فیض الرضا میں شعبہ ناظرہ کے لئے تقرری ہوئی، اضافی ذمہ داری مطبخ انچارج کی حیثیت سے دی گئی ۔اس وقت سے تاحال ادارہ کے ہر سردو گرم میں شامل ہیں ۔ناظم اعلیٰ حاجی تسلیم رضوی کے معتمد خاص رہے، ان پر سب سے زیادہ. بھروسہ و اعتماد کیا کرتے تھے ۔جب بھی ضرورت ہوتی آواز دی تو ماسٹر صاحب کھڑے ہوجاتے، ان کی خدمات لائق ستائش اور قابل تحسین ہیں ۔ادارہ پر بُرا وقت بھی آیا لیکن یہ ہمیشہ ناظم صاحب کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑے رہے ۔مفتی صاحب قبلہ کے بڑے پیارے تھے ۔ان سے ہی مرید ہیں ۔نام کے ساتھ حلیمی کے بغیر اپنا نام ’’ادھورا‘‘ سمجھتے ہیں ۔ناظم اعلی اور سر پرست جامعہ کے بڑے چہیتے رہے ۔ان کی چاہت کا بھرم آج بھی باقی رکھے ہوئے ہیں ۔اپنی خدمات سے صحن مدرسہ کو چمن زار بنائے ہوئے ہیں۔
مولانا مشرف رضا مصباحی: سیتامڑھی ضلع کا ایک گاؤں رودلی ہے یہی گاؤں آپ کا وطن ہے۔ابتدائی تعلیم دارالعلوم فیض الرضا ددری سے مکمل کرنے کے بعد جامعہ اشرفیہ مبارکپور چلے گئے ۱۹۹۶ ء میں سند فراغت سے نوازے گئے۔ ابتدا میں لاتور مہاراشٹرا میں منصب امامت پر فائز رہے۔۱۹۹۸ ء تا ۲۰۰۷ ء دارالعلوم غریب نواز ناندیڑ میں ایک مثالی مدرس کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کی۔ ناندیڑ سےرخصت ہوکر ممبئی کی ساکی ناکہ کے ایک مدرسے میں استاد مقرر ہوئے لیکن جلد ہی سبکدوش ہوگئے ۔ ابھی اسی علاقے میں اپنا مدرسہ چلارہے ہیں۔
آپ مفتی عبدالحلیم رضوی علیہ الرحمہ کے مرید ہیں۔ سابق ناظم اعلی حاجی محمد تسلیم رضوی کے داماد ہیں۔ فراغت کے بعد سے فیض الرضا کے لیے رمضان المبارک میں چندے کے سلسلے میں اپنے مخصوص حلقے کا دورہ کرتے ہیں۔ہر شہر کا دن تاریخ وقت یہاں تک کے گاڑی بھی متعین ہے کہ کب کہاں کس وقت کس گاڑی سے نکلناہے۔ فیض الرضا ددری کے لیے ان کی محنت و کوشش بے مثال ہے ۔ مستقبل کا بہت کچھ پلان رکھتےہیں لیکن ادارہ کو وقت دینا ذرا مشکل امر ہے ممکن ہے چند سالوں میں ادارہ کو پورا وقت دینے لگیں اور چمن حلیمی کو بام عروج تک پہنچانے میں اپنی سی کوشش کریں۔
مصطفیٰ رضا ناگپور:یوں تومفتی صاحب قبلہ کے صاحبزادے شعیب رضا ،یونس رضا نے والد صاحب کا ساتھ دیا،آپ کی غیر موجودگی میں چھوٹے بھائی بہن کا خیال رکھا۔ لیکن چوتھے و آخری صاحبزادے مصطفیٰ رضا نے سب سے زیادہ خدمت کی ۔اپنی کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سے والد صاحب کے دست و بازو بنے ۔ادارہ کے ہر فیصلے میں ان کو ضرور شامل کیا جاتا، ناگپور، مہاراشٹر، آندھرا پردیش، و دیگر جگہوں سے ادارہ کے لئے جو چندہ آتا اس کا حساب کتاب رکھنا ان کی ذمہ داری تھی، رسید بک کی چھپائی ،پھر کس کس کو بھیجنا ہے، چندے کی رقوم کے ساتھ رسید کی وصولی وغیرہ۔ جہاں کہیں کوئی مسئلہ ہوتا تو ان کو ہی سامنے رکھا جاتا، مفتی صاحب قبلہ کے پروگرام کی تفصیلات، ٹکٹ نکالنا، اسٹیشن لانا، پہنچانا، سارے کام کی ذمہ داری ان کی تھی ۔
محمد شریف ناگپور:۔محمد حنیف شری رام گیریج والے کے بڑے صاحبزادے ہیں چھوٹے صاحبزادے محمد اشفاق ہیں۔ مفتی صاحب قبلہ جب بنگالی پنجہ کی رضامسجد میں بحیثیت امام و خطیب تھے تو شریف بھائی کے پڑوسی تھے ۔ شریف بھائی ایک اچھے خلیق اور ملنسار شخص ہیں۔ دینی مزاج رکھتے ہیں ۔فیض الرضا ددری کے قیام کے بعد سے ادارہ کا ہرطرح خیال رکھتے ہیں ۔بلکہ مفتی صاحب قبلہ نے ادارہ کی ضروریات اور اخراجات کے لیے جب آواز دی ، یہ تیار رہے اور جو ممکن ہوسکا تعاون دیا۔ مفتی صاحب قبلہ شانتی نگر اپنے ذاتی مکان میں منتقل ہوگئے لیکن جب بنگالی پنجہ آتے تو خاص کر جمعہ کے دن شریف بھائی بلاکر چائے ناشتہ کا انتظام رکھتے ،عیدین میں ملاقات کے لیے ان کے گھر جاتے بچوں کو عیدی بھی دیا کرتے تھے۔ دنیا سے شخصیت چلی جاتی ہے ان کا لگایاہوا شجر باقی رہتاہے۔ حضور مفتی صاحب قبلہ نے جو علمی شجر لگایاہے وہ ہر سال برگ و بار لاتاہے۔ علماء کی ایک جماعت فارغ ہوکر قوم و ملت کی خدمات میں ملک کے طول و عرض میں پھیل کر مسلک و ملت کا کام انجام دیتے ہیں ۔لہذا جو محبت و وارفتگی مفتی صاحب قبلہ کے ساتھ تھی وہ باقی رہے ،ادارہ کا تعاون و امداد جاری رہے ،یہاں کے ذرے بھی ان کے حق میں دعاگو ہوں گے۔
انیس بھائی کانچ والے:
مفتی صاحب قبلہ بنگالی پنجہ کی چھوٹی مسجد کے امام و خطیب ناگپور آنے کے سال دو سال بعد ہی مقرر ہوئے تھے۔انیس بھائی مسجد ذمہ دار تھے ۔یہ وہ گھر تھا جس گھر کے آپ ایک فرد تھے ۔انیس بھائی کی والدہ نے آپ کو رومال اوڑھا کر اپنا بیٹا بولی تھی، پھر ماں بیٹے کا رشتہ ان کی زندگی بھر رہا ۔انیس بھائی کے دیگر بھائی نیاز احمد، فیاض احمد، ریاض اور عبد الوکیل پھر ان کی اولاد بھی مفتی صاحب سے بھائی، چچا اور دادا کا رشتہ رکھے ہوئے تھے ۔انیس بھائی چند سال پیشتر دنیا سے رخصت ہوگئے، لیکن دیگر بھائیوں نے مفتی صاحب سے محبت اور اپنائیت کو باقی رکھا ۔
مفتی صاحب قبلہ بنگالی پنجہ سے شانتی نگر اپنے ذاتی مکان میں منتقل ہوگئے، رضا مسجد میں نائب امام رکھ دیے گئے کہ آپ دعوت و تبلیغ کے لئے سفر پر زیادہ رہتے تھے۔ پھر بھی اس گھرانے کی طرف سے محبت بھرا مطالبہ یہی تھا کہ جمعہ ،رمضان کی تراویح اور عیدین کی نماز آپ یہیں پڑھیں گے ۔جسے آپ نے بخوشی قبول کیا اور شہر میں ہیں تو جمعہ کو لازماً رضا مسجد میں تقریر ہوتی اور نماز پڑھاتے۔ انہی کے گھر سے کوئی فرد گاڑی لے کر شانی نگر میں گھر کے سامنے کھڑا ہوجاتا ۔آپ اس کے ساتھ تشریف لے آیا کرتے۔امام جو بھی رکھے جاتے ان کو پہلے ہی کہہ دیا جاتا کہ مفتی صاحب اگر آگئے تو پھر تقریر اور نماز وہی پڑھائیں گے یا اگر کسی دوسرے کو کہہ دیا تو ان کے ماذون کو ہماری طرف سے اجازت رہے گی ۔آپ پیچھے رہیں گے ۔دارالعلوم فیض الرضا کی تعمیر و ترقی میں بھی اس گھرانہ نے کافی تعاون کیا، یہ سلسلہ کسی نہ کسی طرح باقی ہے ۔للہ پاک اس گھرانے کو سلامت رکھے ۔اپنے پیشرو کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے ۔
قاری محمد رضا : حاجی تسلیم رضوی کے بڑے صاحبزادے ہیں ۔بینائی کی کمزوری کی وجہ سے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کرسکے، امرڈوبھا یوپی میں قاری مطلوب صاحب کے پاس رہ مشق و قرآت کی تعلیم حاصل کی۔تقریباً بیس سالوں سے جامعہ ضیائیہ فیض الرضا میں شعبہ مشق و قرات کے استاد ہیں ۔مفتی صاحب قبلہ کو ان کی قرأت بہت پسند تھی،دارالعلوم فیض الرضا کے ابتدائی دور سے تاحال تعلیمی میدان ایک مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں،ایک اچھے معاون بن کر والد کے ساتھ ادارہ کے ہر سرد و گرم کے گواہ ہیں ۔ ادارہ کے رقوم کی وصولیابی کے لئے ابھی بھی کسی کو ساتھ لے کر رمضان میں باہر نکلتے ہیں ۔
احمد رضا عرف گڈو بابو: سابق ناظم اعلیٰ کے چھوٹے ہیں ۔دارالعلوم فیض الرضا میں حافظ رحمت اللہ کے پاس چند پارے حفظ کی پھر بینائی کی کمزوری کی وجہ سے حفظ مکمل نہ کرسکے ۔ ادارہ کے ہر کام میں یہ بھی والد کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے، کھیتوں سے فصل کی کٹائی کے زمانے میں عشر وغیرہ کی وصولی ، بقرعید میں چرم قربانی کی وصولی ، ناظم صاحب کی غیر موجودگی میں گھر کی ذمہ داری،مہمانوں کی خاطر داری ،تعطیل کلاں میں جو بچے مدرسہ میں رہتے ان کے کھانے پینے کا انتظام وغیرہ دیکھتے ہیں۔ مدرسہ میں کسی چیز کی ضرورت پڑی تو کام کے لئے ہر دم تیار ۔ ادارہ کے کام کاج میں ذاتی دلچسپی کی وجہ سے والد صاحب کے انتقال کے بعدادارے کے نگراں بنائے گئے ہیں ۔سیاست بلفظ دیگر نیتا گیری میں بھی پہچان رکھتے ہیں۔
الحاج عبد الستار میمن جنتا کلاس: ۔مفتی صاحب قبلہ نے جب فیض الرضا کو قائم کیا تو حاجی عبد الستار میمن ہر ماہ ملنے والی رقم کو فیض الرضا کو دیا کرتے تھے، یہ سلسلہ ۱۹۹۰ ء تک جاری رہا ۔دعوت اسلامی جب ناگپور میں آئی تو رقم کے استعمال کا قبلہ بدل گیا۔حضرت کی اِن کے ساتھ دوستی بے تکلفانہ تھی گھریلو تعلقات رہے ہر سکھ دکھ میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہے۔آج جبکہ حاجی صاحب دنیا میں نہیں رہے، مفتی صاحب بھی خلد نشین ہوچکے ہیں، حاجی صاحب کی اولاد و امجاد دینی شعور و فکر رکھتے ہیں،دینی خدمات کا جذبہ بھی فزوں تر ہے۔جامعہ ضیائیہ فیض الرضا باقی ہے لہذا دینی قلعے کا تعاون جاری رہے تاکہ یہ علمی قلعہ اور مضبوط و مستحکم ہو۔
حاجی عبد الرزاق:ڈونڈائچہ ضلع دھولیہ مہاراشٹر سے تعلق رکھتے ہیں ۔ان کی تین پشت حضور مفتی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کی مرید ہے ۔اس شہر میں حضرت کا 1970 سے آناجانا ہے ۔حاجی عبد الرزاق کے والد سے مفتی صاحب کی پہلے ملاقات ہوئی پھر آہستہ آہستہ پورا گھرانہ مانوس ہوگیا۔عبدالرزاق بھائی اپنے شہر اور قرب وجوار کے علاقوںسے چندہ وغیرہ جمع کرکے فیض الرضا ددری کو بھیجتے ہیں۔ ادارہ کے ممبر بھی ہیں ہر جلسہ دستار بندی میں شرکت کرتے ہیں ۔مفتی صاحب قبلہ کے بڑے چہیتے رہے ہیں، ادارہ کے ہر کام میں متحرک رہتے ہیں، مشورے میں شامل رہتے ہیں ۔ادارہ کے ان کی کاوشیں قابل ستائش ہیں ۔اللہ پاک ان کے حوصلوں کو بلند رکھے، ان کے صاحبزادے مولانا محمد رضا مصباحی کو مفتی صاحب قبلہ نے اپنے ساتھ رکھ کردرس نظامی کی ابتدائی تعلیم دی پھر کچھ سال فیض الرضا ددر میں رہے ،یہاں سے الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور جاکر درس نظامی کی تکمیل کی۔ ماسٹر اسلم صاحب بھی مفتی صاحب قبلہ کے قدیم شناسا ہیںان کی چاہت و محبت بھی بے لوث تھی ۔ان کے علاوہ ڈونڈائچہ میں مریدین معتقدین اور محبت کرنے والوں کی کمی نہیں۔ہر دستار بندی میں یہاں سے درجنوں لوگ ددری پہنچ کر اپنی محبت اور مفتی صاحب سے عقیدت کاثبوت دیتے ہیں۔ ادارہ کے بہی خواہ ہیں، تعاون وامداد دیتے ہیں اللہ پاک ان سب کو بہتر جزا عطا فرمائے ۔
شکوری بھائی :۔ مچھلی پٹنم اندھرا پردیش سے ان کا تعلق ہے ۔مفتی صاحب قبلہ کے مرید خاص ہیں ۔ اپنی بلڈنگ کا نام ’’حلیمی منزل‘‘ رکھا ہے ۔ حضرت کے ساتھ کئی عمرہ میں ساتھ رہے، خدمت کی اور دعائیں لی، قبر میں نعش مبارک کو اتارنے کے لئے بھی اترے تھے ۔ان کی طرف سے بھی ادارہ کو اچھا تعاون ہوتا ہے ۔اس شہر میں حضرت کے دورے بھی بہت ہوتے تھے، یہاں کے احباب گروپ کی شکل میں حضرت کی معیت میں عمرہ کے لئے جایا کرتے تھے اور مقامات مقدسہ کی زیارت کرتے تھے۔راقم ایک مرتبہ حضرت کے ساتھ اس شہر میں حاضر ہوچکا ہے ۔اللہ پاک سب کو بہترین اجر عطا فرمائے ۔حضرت کے لگائے ہوئے چمن جامعہ ضیائیہ فیض الرضا ددری کو ان کی حیات میں جس طرح تعاون کرتے تھے اس سلسلے کو باقی رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔شکوری بھائی کے بڑے بھائی غفوری بھائی حضرت کے بڑے چہیتے تھے ،مچھلی پٹنم میں آپ جب کبھی جاتے وہ ضرورملنے آتے ،ان کی محبت بھی بے مثال تھی ،ان کا انتقال ہوچکاہے ۔رب قدیر اپنی شان کریمی کے مطابق ان کو بہترین اجر و جزا عطا فرمائے ۔
حاجی عبدالرسول:۔ نندی گاما وجے واڑہ سے تعلق رکھتے ہیں، حضرت ان سے بہت محبت کرتے تھے ۔یہ بھی حضرت کو جی جان سے چاہتے تھے، انہوں نے حضرت کے ساتھ ہی عمرہ اور حج بھی ادا کیا ۔وجے واڑہ کے قرب و جوار میں دعوت وتبلیغ کے لئے حضرت کے ساتھ سفر بھی بہت کیے۔ہر رمضان المبارک میں مدرسہ اور حضرت کا نذرانہ اور عید کا جوڑا تقریباً 26/27 سالوں تک بھیجتے رہے۔ان کی محبت بے لوث تھی، مفتی صاحب قبلہ نے بھی ان سے بے پناہ محبت فرمایا کرتے۔انہوں نے بھی جامعہ ضیائیہ فیض الرضا کو ہمیشہ یاد رکھا اور تعاون دیتے، ان کا اور نندی گاما کے ان تمام مخلصین کا بے حد شکریہ ۔حضرت مفتی صاحب کا علمی چمن قائم ہے اپنی عنایت خسروانہ کو پہلے کی طرح باقی رکھیں ۔
عباس بھائی دوست: ضلع نندربار مہاراشٹر سے ان کا تعلق ہے ۔یہ تعلق اتنے گہرے ہیں کہ حضور مفتی صاحب قبلہ ان کو دوست کہا کرتے تھے، حضرت کے مرید خاص ہیں، غالباً گھر کے سبھی افراد حضرت کے ہی مرید ہیں ۔جامعہ ضیائیہ فیض الرضا ددری کے بڑے بہی خواہ ہیں ۔ہر سالانہ جلسے میں اپنے بیتے شاہد رضا کے ساتھ شرکت کرتے ہیں، ایسا بھی ہوا کہ ٹرین کی ٹکٹ کنفرم نہ ہونے پر فور ویلر سے ہی ددری پہنچ گئے ۔ان کا گھرانہ چھوٹے بڑے سبھی حضرت کے دیوانے ہیں ۔بچوں کے نام بھی آپ نے رکھا، جب شادی ہوئی تو نکاح کے لئے بھی آپ ہی مدعو کیے گئے ۔حضرت سے محبت کا تقاضا ہے کہ محبت باقی رکھتے ہوئے چمن حلیمی جامعہ ضیائیہ فیض الرضا کو پروان چڑھایا جائے ۔مفتی یحییٰ رضا کا دست وبازو بن کر علمی گلشن کو مزید دیکھ بھال کی جائے ۔
انجنیئر محمد مجاہد حلیمی: آپ کا بھی تعلق نندربار مہارشٹر سے ہی عباس بھائی کے گھر قریب ہی آشیانہ ہے ۔پیشے سے سول انجینئر ہیں۔مفتی صاحب کے بڑے چہیتے مرید ہیں دونوں طرف سے محبت کے جذبات امنڈتے تھے ۔مسجد برکات رضا ددری کی ڈیزائنر بھی ہیں ۔بنیاد سے لے کر اب تک کا کام آپ کی ہی نگرانی میں ہوا ہے ۔حضرت کے وصال کے بعد عرس چہلم کے موقع پر مزار بنانے کے لئے زمین کی پیمائش کی گئی ۔انجنیئر صاحب نے ہی عمارت کے ڈیزائن کی ذمہ داری لی ۔ڈیزائن بن چکا ہے، مزار کا تعمیری کام جاری ہے ۔ موجودہ ڈیزائن کا خاکہ ان کے ذہن میں کیسے آیا؟ یہ ایک دلچسپ واقعہ ہے ۔یہ واقعہ انہوں نے خود بیان کیا ہے جسے یہاں نقل کر رہا ہوں ۔۔۔
حضرت کے عرس چہلم میں زمین کی پیمائش ہوگئی ،یہ طے ہوگیا کہ کتنی زمین پر تعمیراتی کام شروع ہوں گے ۔گھر آگیا لیکن کئی مہینے گزرنے کے بعد بھی گنبد و مینار کا کوئی خاکہ سمجھ میں نہیں آیا۔ نندربار شہر سے قریب ہی ایک سید زادے کی مزار پاک ہے وہاں میں حاضر ہوا اور دعا کی کہ پیر و مرشد کے مزار پاک کی عمارت کا خاکہ بناناہے لیکن ذہن میں کوئی خاکہ نہیں آرہاہے ۔آپ کرم فرمائیے تو کام بن جائے۔ یہ دعا کی اور فوراً میرے ذہن میں ایک خاکہ ظاہر ہوا۔محض دو دن کے غور و فکر کے بعد نقشہ تیار کرلیا ‘‘
انجنیئر مجاہد حلیمی کے بنائے ہوئے نقشے کے مطابق تعمیراتی کام جاری ۔چونکہ یہ وہاں رہ نہیں سکتے ۔لہذا محمد امجد آرکٹیکٹ دیکھ بھال کرتے ہیں۔ مجاہد حلیمی جب ضرورت محسوس کرتے ہیں ۔ تعمیراتی کام جائزہ لینے ددری پہنچ جاتے ہیں۔
مفتی راحت احسان مصباحی : آپ کا تعلق کٹیہار بہار سے ہے ۔سابق صدر المدرسین جامعہ ضیائیہ فیض الرضا مولانا ظفر امام مصباحی اندولوی ادارہ سے سبکدوش ہوئے تو کسی قابل استاد کی ضرورت تھی، مفتی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کی نظر مفتی راحت احسان مصباحی پر ٹِک گئی ۔2006 میں آپ چریا کوٹ مولانا عبد المبین نعمانی صاحب کے مدرسہ میں استاد تھے، اُن سے اِن کو مانگ لیا کہ فیض الرضا کو مفتی راحت احسان کی ضرورت ہے ۔اِنہوں نے نہ صرف تعلیمی معیار کو بلند کیا بلکہ درجہ مولویت سے دو درجہ بڑھا کر عا لمیت تک کردیا، اس کے علاوہ کئی اصلاحات تعلیمی میدان رائج کیا ۔سرپرست جامعہ مفتی صاحب قبلہ ان سے بہت خوش تھے، ان کی کارکردگی پر اُن کو اطمینان تھا ۔سابق ناظم اعلیٰ حاجی تسلیم رضوی کے انتقال کے بعد کئی ذمہ داریاں اور بڑھ گئیں جنہیںبخوبی نبھایا اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔
عنایت بھائی ستنا :۔مدھیہ پردیش کا ایک شہر ستنا ہے ۔ناگپور سے بہار جانے والی تقریباً تمام گاڑیاں یہاں سے گزرتی ہیں ۔عنایت بھائی کا تعلق اسی شہر سے ہے ۔مفتی صاحب ٹرین سے جب اس شہر سے گزرتے، عنایت بھائی توشہ لے کر حاضر ۔اگر پانچ دس لوگ بھی ہوں تو ان کے یہاں سے اتنا کھانا اجاتا کہ سفر میں مزید خریدنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اگر حضرت کے مہمان بھی سفر میں جارہے ہوں معلوم ہوجائے تو اِن کے یہاں سے توشہ آجاتا ۔مفتی صاحب قبلہ سے گہرے مراسم تھے، بے انتہا محبت رکھتے ہیں ۔ان کی چاہت حضرت کے گھر والوں کے ساتھ بھی ہے ۔ناگپور میں ان سے میری ملاقات نہیں ہوئی ۔البتہ عرس چہلم میں آئے تھے۔ وہیں ان کو دیکھا تھا ۔
شہاب الدین بھائی اٹارسی : ۔ناگپور سے جب ٹرین نارتھ انڈیا کی طرف چلتی ہے تو پانچ گھنٹے بعد پہلا بڑا اسٹیشن اٹارسی جنکشن ہے ۔شہاب الدین بھائی کا تعلق اسی شہر سے ہے ۔اس علاقے میں جب کبھی مفتی صاحب قبلہ کا کوئی پروگرام میں ضرور ساتھ کرتے تھے ۔ ان کی سخاوت عنایت بھائی ستنا کی طرح بے مثال تھی، اتنا معلوم ہوجائے کہ حضرت اٹارسی کی طرف آرہے ہیں یہ سامان سے لدے ہوئے اسٹیشن پہنچ گئے۔ مفتی صاحب کہتے چند گھنٹہ پہلے گھر سے نکلا ہوں اب اتنا کیا کروں؟ حضرت : رکھ لیں آگے کام آئے گا ۔جو ساتھ میں ہے وہ ساتھ دیتے رہیں گے ۔مفتی صاحب قبلہ ڈھیر ساری دعائیں دے کر رخصت کرتے ۔ادارہ کو ان کا تعاون حاصل رہا، یہ سلسلہ جاری رہے ہم اس کی دعا کرتے ہیں۔
اشرف رضا ٹٹلا گڑھ :ریاست اڑیسہ کے شہر ٹٹلا گڑھ سے تعلق ہے ۔عوت اسلامی کے مبلغ ہیں دینی خدمات کا زبردست جذبہ رکھتے ہیں ۔ مفتی صاحب سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں ۔اڑیسہ کے کسی شہر میں مفتی صاحب قبلہ کا پروگرام ہو، یہ وہاں خدمت میں پہنچ جاتے ۔فتاوی حلیمیہ کے طباعت و اشاعت کے لیے بڑی تگ و دو کی اور حضرت کی علمی نشانی کو اہل علم کی بارگاہ میں پیش کیا ۔ حضرت کے وصال کا ان پر بھی بڑا اثر پڑا ۔ حضرت کے مزار شریف کے تعمیراتی کاموں کا تمام تر ذمہ داری لی ہے، ایک مہم کے طور پر تعمیراتی کام کو حضرت کے مریدین میں چلارہے ہیں اور وہاں ہونے والے اخراجات کی تکمیل میں بڑی تندہی سے لگے ہوئے ہیں ۔جزاک اللہ احسن الجزا
سلیم بھائی وجے واڑہ : وجے واڑہ آندھرا پردیش سے ان کا تعلق ہے ۔حضرت کے مرید خاص، بلکہ بیٹے کا درجہ حاصل تھا، زندگی کے آخری
سات سالوں میں ٹھنڈی کے ایام انہیں کے یہاں گزارے، وجے واڑہ، نندی گاما، گنٹور، راجمنڈری، مچھلی پٹنم، وشاکھا پٹنم کے شہرو دیہات میں حضرت کے مریدین کثرت سے ہیں، ان علاقوں کا جو بھی دورہ اِدھر دس پندرہ سالوں میں کیا ہے سلیم بھائی ساتھ رہے، مریدین میں ان کا اچھا تعارف ہوچکا ہے،حضرت کے مریدین کے حلقوں میں ان کی اچھی شناخت بن چکی ہے لڑکے لڑکیوں کا ادارہ چلارہے ہیں۔ ہر ماہ اردو کی بارہویں شب کو پیر و مرشد کی فاتحہ ررکھتے ہیں۔حضرت اپنے آخری عمرہ کے سفر میں ان کو اپنی خلافت بھی دے چکے ہیں۔
بھدرک کے ایک دوست : مفتی صاحب کے ایک نہایت ہی مخلص دوست تھے جن کا تعلق بھدرک اڑیسہ سے تھا، دوستی اتنی گہری اور دوطرفہ چاہت تھی کہ دیکھنے والےکہاکرتے تھے’’ یہ دونوں دنیا سے گئے تو ایک ہی قبر میں دفن ہوں گے"
لیکن یہ دوستی اس وقت تار عنکبوت ثابت ہوئی جب آپ پر تحریک دعوت اسلامی کے لئے پیسہ لے کر کام کرنے کا الزام لگا۔اس افواہ کے زد میں وہ ’’دوست‘‘ بھی آگئے ۔اور برسوں کی محبت کو پل بھر میں بھلا دیا،افواہ پھیلانے والوں کے ساتھ ہوگئے ۔اعتماد ،دوستی اور قدیم تعلقات کویکسر بھلاکر ایسے ناراض ہوئے کہ شکوہ شکایت کے ازالہ تک کی مہلت نہیں دی ۔مفتی صاحب نے کئی بار اس کا ذکر کیا کہ بالمشافہ مجھ سے مل لیتے تو الزامات، خدشات اور بدگمانیاں دور ہوجاتی ۔
ایک واقعہ:ایک مرتبہ ایسے ہی حضرت کے ساتھ گفتگو ہورہی تھی یہ واقعہ 2010 کے بعد کا ہے، مدنی چینل لانچ ہوچکا تھا کئی طرف سے عدم جواز پر شدومد کے ساتھ آوازیں اٹھ رہی تھیں، حضرت کا نام بھی لیا جارہا تھا جبکہ ملک کے بڑے دارالافتاء سے استفتاء کے جواب آنے کے بعد ہی مدنی چینل کی نشریات شروع ہوئی تھی،
پہلے میں سمجھتا تھامیرا دامن اختلاف و انتشار سے محفوظ ہے، ہر طرح کے اختلافات سے دامن بچانے کی ہمیشہ کوشش کرتا رہا لیکن اب لگتا ہے ایسا نہیں ہے میں الزامات کی زد پر ہوں۔اب میرا نام ’’دامن کشاں ‘‘ میں نہیں بلکہ ’’آلودہ دامن ‘‘میں لیاجانے لگا ہے۔یہ کہہ کر ذرا مغموم نظر آئے ۔
راقم نے کہا:حضرت! اس کا مطلب ہے آپ نے بھی قوم و ملت کی بھلائی کا کچھ کام کیا ہے اسی لیے نام اچھالا جارہا ہے، نام اسی کا آتا ہے جو میدان عمل میں ہو، گوشہ نشینوں کا نام لینا بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے ۔
یہ سن کر حضرت مسکرانے لگے۔۔۔۔۔
وقت کم ہے جہان فقیہ اسلام نمبر کو پریس کے حوالے کرنا ہے۔جن لوگوں کاذکر ہوا جن کے بارےمیں میرے علم میں کچھ باتیں تھیںاسے ذکر کردیا،شعور کی جب آنکھیں کھلی تو مفتی صاحب کو عام مجلسوں میں خود کو ’’بوڑھا، وقت گزرچکاہے ، اب مجھ سے کام نہیں ہوتا ،محنت کے کام مجھ سے نہیں ہوتے ،تم لوگ جوان ہو میدان میں اتر کرکام کرو، میں اپنا وقت گزار چکاہوں،زندگی بے ثبات سی لگنے لگی ہے،اس بڑھاپے میں پریشان کرنے کا ارادہ ہے جیسے جملے سننے کو ملتے تھے،پھربھی زندگی کی آخری سانس تک محو سفر رہے اور سفر ی حالت میں ہی آخرت کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ اوپر فراہم کردہ معلومات مشاہدات سے زیادہ حضرت کی زبانی سنی ہوئی باتیں ہیں۔حضرت کی عادت تھی کبھی بولنا شروع کرتے ماضی و حال پر سیر حاصل گفتگو کرتے ،حالات وواقعات بتاتے ،کبھی بولتے بولتے خاموش ہوجاتے ، موضوع بدل دیتے ،یا سامنے والے سے ہی دوسرے سوالات کرکے اصل بات کو زبان پر لاتے لاتے رُک جاتے ۔ چلو چھوڑو ،دوسری باتیں کرو،والا انداز آجاتا۔
مفتی صاحب قبلہ پیری مریدی کو بھی دعوت دین کا حصہ سمجھتے تھے ۔ ان کے مطابق: عام مسلمان جس پیر سے جڑ جاتاہے کم از کم اس کے ایمان کی حفاظت ہوجاتی ہے۔اسی بہانے مرید مسلک و مشرب سے وابستہ رہتاہے‘‘۔ حضرت اپنے مریدوں کو ہر دعا میں یاد رکھا کرتے تھے ۔ ان کا ایک جملہ تقریباہر دعا کا حصہ ہوتا’’مولا! تیرے جن جن بندے بندیوں نے دعا کے لیے کہاہے،کتنے چاہنے والوں نے دعا کی درخواست کی ہے ۔دل کی دھڑکنوں سے باخبر مولاسب کی مرادوں کو پوری فرمادے ۔اس مضمون کو ایک اہم واقعے پر ختم کررہاہوں۔
مولامیرے مریدین کی بخشش فرما:۔
غالباً۲۰۱۰ ء میں حضرت نے ڈونڈائچہ ضلع دھولیہ کا سفر کیا راقم ساتھ میں تھا، جس کے گھر میں ہمیشہ قیام ہوتاان کا انتقال ہوچکا تھا ،مفتی صاحب قبلہ ان کے صاحبزادےکی مالی حالت کا خیال کرتے ہوئے بعض اشخاص سے کہا کہ میرے آنے کے بعد ملنے جلنے والوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ لہذا دوسری جگہ انتظام ہوتو بہترہے ،لیکن ان کے لڑکے شوکت حلیمی نےباصرار اپنے ہی گھر پر ٹہرایا ،والد کی روایات کو باقی رکھتےہوئے ہر آنے والے جانے والوں کے لیے چائے ناشتے کا بھی انتظام کیا۔ رات میں پروگرام تھا۔ شاید ہم لوگوں کو شب کے تین بجے سونے کا موقع ملا مفتی صاحب قبلہ بھی آرام کرنے لگے ،ان کو تھوڑی دیر میں تہجد کے لیے بیدار ہونا تھا لہذا سوگئے۔کسی کے رونے یا آہ وفغاں کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی ۔کمرے کی چھوٹی لائٹ جل رہی تھی ، حضرت تہجد کی نماز پڑھ کر بڑی رقت آمیز دعا کررہے تھے ، جو جملے میری سماعتوں سے ٹکرا ئے وہ یہ تھے ، مولا! میرے مریدین ، معتقدین اور جو بھی چاہنے والے ہیں ان کی بخشش فرمادے ، ان لوگوںنے اپنی نجات کے لیے مجھ گنہگار کا کا دامن تھاماہے ، مولاتو کریم ہے کرم فرمادے ،سب کو نجات عطا فرمادے‘‘۔ان کی آواز میں رقت تھی ،درد تھا،دردبھری آواز میں چاہنے والوں کی عاقبت سنوارنے کے لیے دعا کرتے رہے، لیکن پھر مجھ پر نیند کا غلبہ ہوگیا ۔تھوڑی دیر بعد نماز فجر کے لیے حضرت نے خود اٹھایا کہ نماز پڑھ لو فجر کی اذان ہوچکی ہے‘‘۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے