ہے کمی تو بس میرے رہنما کی۔۔۔۔

 ہے تو کمی بس میرے چاند کی۔۔۔۔۔۔

مناظر اہلسنت الحاج الشاہ مفتی عبد الحلیم رضوی اشرفی علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد ان کے دولت خانے پر پہلی بار حاضری پر میرے جذبات و احساسات

از۔۔۔۔۔ محمد افروز رضا مصباحی، گلبرگہ

شام کا وقت ہے مغرب کی نماز پڑھ چکا ہوں ۔عام طور سے دنیائے سنیت کے عظیم رہنما پیکر شفقت و محبت مفتی عبدالحلیم رضوی اشرفی سے ناگپور آنے کے بعد اسی وقت ملاقات کی غرض سے حاضر ہوا کرتا تھا، (ان کی حیات میں ناگپور پہنچنے کے بعد ملاقات کرنے کی جلدی ہوتی ورنہ پوچھ لیتے اب تک کہاں تھے، اب فرصت ملی ہے؟) آج پھر حاضر ہوں، دروازے پر دستک دی بڑی بہو دروازہ کھولتی ہے، اندر داخل ہوا، عام طور سے باہر سے ہی کمرے کی طرف جھانک لیا کرتا کہ پلنگ پر تشریف فرما ہیں یا کرسی پر ۔لیٹے ہیں یا بیٹھے ہیں، آج جھانکنے کی کوشش کی تو اُدھر سے دروازہ بند تھا، کچن کے دروازے سے اندر داخل ہوا مربی ورہنما کے کمرے کی طرف بڑھا، لیکن کمرہ خالی ہے، پلنگ ہے، پلنگ نشین موجود نہیں، کرسی ہے صاحب کرسی موجود نہیں، کمرہ وہی ہے، پھر مکین کہاں ہیں؟ دل کا سوال تھا، ورنہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوتا مسکراتا چہرہ نظر آتا، سلام کرتا جواب دیتے، اور حافظ جی کیسے ہو؟ سوال ہوتا۔مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتا تو میری دست بوسی سے پہلے خود میرا ہاتھ بطور شفقت چوم لیا کرتے، میں شرمسار، کہتے کیوں تم چوم سکتے ہو میں نہیں؟ پھر بیٹھنے کا اشارہ کرتے، چچی اماں ہوتی تو کہتے مولانا آئے ہیں کچھ ہے تو لاؤ۔۔۔۔۔۔

پھر خیر خیریت، حال چال پوچھتے، ان کی بارگاہ میں کبھی بیٹھا تو گھنٹوں بیٹھا، سوالات کیے، جوابات دیے، انداز تخاطب بھی پیارا ہوتا، زندگی کے اونچ نیچ کو سمجھایا، دین و سنیت کے لئے کچھ کام کرنے کا مشورہ دیا، نوجوان علماء جو دینی کاموں مصروف رہتے انہیں دیکھ کر ان کی توقع بڑھ جاتی تھی کہا کرتے تھے :آپ لوگ جوان ہو، کام کرنے کا موقع ہے،ابھی کام کرلو، سونے کے لئے قبر سےحشر تک کی بڑی لمبی مدت رہے گی۔ قوم کے لئے کچھ کروگے تو قوم ہاتھ چومے گی سر پر بیٹھائے گی۔

نام کم لیتے مولانا، حافظ جی سے ہی مخاطب فرماتے، جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء دہلی سے واپس آیا تھا معمول کے مطابق ملنے حاضر ہوا، چچی اماں نے دروزاہ کھول کر مین گیٹ سے اندر بلائی، حضرت نے اندر سے ہی پوچھ لیا کون ہے؟  چچی اماں نے کہا : افروز ہے۔ بعد میں حضرت نے کہا : افروز اب حافظ قاری مولانا، اور اب تو دلی کی سرزمین سے تخصص کرکے آئے ہیں، حافظ مولانا کہا کرو، عزت گھر سے شروع ہوتی ہے، گھر والوں کو خیال رکھنا چاہیے۔

وہ ان کا پیارا انداز ہوتا، وہ محبت ہوتی کہ بس شبنمی پھوار میں بھگتے جایے، شفقت بھرے انداز پر قربان ہوتے جایے ۔یہاں اپنائیت کی وہ نوازش ہوتی کہ اجنبی کو بھی  اپنائیت محسوس ہونے لگتی، کھانے کا وقت ہوچکا ہو تو بول دیا کرتے کھاکر جانا، بھاگ مت جانا، ان کی موجودگی میں شاید ہی ایسا ہوا ہو کہ انکار کردوں ،الامرفوق الادب کا یہاں معاملہ ہوتا کیونکہ جلد بازی میں جاکر واپس کبھی لوٹ آیا تو بعد میں ناراضگی جتائی کہ کیوں چلے گئے، رُکنے کو کہا تھا تو بھاگے کیوں؟؟؟ 

آج وہی کمرہ ہے لیکن سونا سونا، بستر موجود ہے نگر سونا سونا، کمرے کی لائٹ جل رہی ہے مگر پھیکی پھیکی محسوس ہورہی ہے وہ چہرہ نہیں ہے جس کے چہرے سے روشنی پھوٹتی تھی، کمرہ تو ان کے جلووں سے منور ہوتا تھا، مکان کااصل مکین خلد نشین ہوچکا ہے یہاں صرف یادیں ہیں، ڈھلتی شام کی ملگجی روشنی ہے، الماری میں کھڑکی کی خالی جگہوں پر رسائل اورکتابیں ہیں وہ بھی انہیں ہاتھوں کے لمس کو محسوس کرنا چاہتی ہے جس کی آمد سے اس کمرے میں بہار آجایا کرتی تھی، وہ نہیں ہیں، وہ چلے گئے، بہت دور چلے گئے، 

سنے کون قصہ دردِ دل میرا غمگسار چلا گیا

جسے آشناؤں کا پاس تھا ،وہ وفا شعار چلا گیا

وہی بزم ہے وہی دھوم ہے ،وہی عاشقوں کا ہجوم ہے

ہے کمی تو بس میرے چاند کی ،جو تہہ مزار چلا گیا

وہ سخن شناس وہ دور بیں، وہ گدا نواز وہ مہ جبیں

وہ حسیں وہ بحر ِعلوم دیں، میرا تاجدار چلا گیا

کہاں اب سخن میں وہ گرمیاں کہ نہیں رہا کوئی قدرداں

کہاں اب وہ شوق میں مستیاں کہ وہ پر وقار چلا گیا

جسے میں سناتا تھا دردِ دل وہ جو پوچھتا تھا غمِ دروں

وہ گدا نواز بچھڑ گیا ،وہ عطا شعار چلا گیا

بہیں کیوں نصیر نہ اشکِ غم ،رہے کیوں نہ لب پر میرے فغاں

ہمیں بےقرار وہ چھوڑ کر سر راہ گزار چلا گیا

میرے مربی و مشفق و رہنما کو دنیا سے رخصت ہوئے انگریزی تاریخ کے اعتبار سے 10/مہینہ ہونے والا ہے ۔2020 کے ستمبر کے مہینے میں ناگپور میں ہی ان کے دولت خانہ پر ملاقات ہوئی تھی، وہی ملاقات آخری ثابت ہوئی ۔پھر دوبارہ ملاقات نہ ہوسکی ۔گھر سے گلبرگہ جانا تھا، الوداعی ملاقات کے لئے حاضر ہوا، اجازت مانگا کہ رات کی گاڑی سے سفر پر نکل رہا ہوں ۔فرمایا : ٹھیک ہے جاؤ اللہ خوش رکھے، جو غلطی ہوئی ہو معاف کرنا، میں منہ تکتا رہ گیا کیونکہ میرے اعتبار سے خلاف توقع بات تھی، خاموش دیکھ کر کہا: بولو معاف کیا۔

میں نے کہا: مجھ سے جو خطائیں ہوئی ہوں معاف فرمائیں ۔پھر اجازت لی اور رخصت ہوگیا ۔یہ نہیں معلوم تھا کہ زندگی کی آخری ملاقات ہے، اب جو دور ہوئے تو قیامت میں ملیں گے۔ وصال کے بعد کئی بار غور کیا تو سمجھ میں آیا کہ انہیں احساس ہوچکا تھا یہ اب دوبارہ نہیں ملے گا،اب ملنے آیا تو قبر پر آئے گا ۔

گھر میں حضرت کے دوسرے نمبر کے صاحبزادے یونس رضا سے ملاقات ہوئی،طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے بستر پر رہتے ہیں۔مصطفےٰ رضا ڈیوٹی سے واپس نہیں آئے تھے ۔وہاں سے نکل کر عشاء کی نماز مسجد میں ادا کی پھر قبرستان چلاگیا چچی اماں اور مفتی مجیب اشرف صاحب علیہ الرحمہ کی قبر پر فاتحہ خوانی کی، نم آنکھوں کے ساتھ گھر واپس آگیا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی