نفرت ہی نفرت

 نفرت ہی نفرت

نفرت کی آگ ملک کو کس سمت لے جائیگی آئندہ حالات کیا ہوں گے سنجیدہ طبقہ یہ سوچ کر ہی متفکرہیں 

از قلم:محمد افروز رضا مصباحی، گلبرگہ۔7795184574 

ملک میں نفرت کی آگ لگی ہے۔ملک کی گنگا جمنی تہذیب خطرے میں ہے۔نفرت کے شعلے کو ہوا دینے کے لیے ہر وہ کام کیا جارہاہے جس سے ہندو مسلم یکتا جل کر خاک ہوجائے۔پبلک آپس میں دست بگریباں ہوجائے۔ملک ترقی کے بجائے کمزور ہوجائے اس سے مطلب نہیں بس مسلمان چین و سکون سے نہ رہے۔آئے دن ایسی ایسی دل خراش اور سینے چاک کرنے والے بیانات سننے کو ملتے ہیں کہ یہ زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ محسوس ہوتی ہے۔مسلمانوں کی قربانیاں بھلاکر سیاسی طور پر کنارے لگانے میں تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کا ہاتھ ہے۔ایک نئے طریقے سے تاریخ لکھنے کا مشورہ دیا جارہاہے جسے اصلاح کا نام دیاگیا ہے۔ملک کی سا  لمیت کو خطرہ لاحق ہے۔نفرت و تعصب کی آندھی ہندو مسلم کے درمیان خلیج بنارہی ہے۔ فرقہ پرست عناصر مسلمانوں کے خلاف دل آزار بیان دے کر پوری کمیونٹی کو صدمے سے دو چار کردیتاہے۔ لیڈران کی نفرت انگیز بیانات نے پڑوسیوں کو ایک دوسرے کے خلاف کردیاجو لوگ برسوں سے آپس میں شیر وشکر ہوکر زندگی گزار رہے تھے،اب ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ خوف کا ماحول بنادیاگیا،برسوں سے ایک ساتھ رہنے والے بھی اپنی کمیونٹی کے اکثریتی علاقے کو ترجیح دینے پر مجبور ہوگئے۔بعض مقامامت پر مسلمانوں کو کرایہ پر مکان دینے سے صاف کردینے کا معاملہ بھی سامنے آتا رہتاہے۔ فرقہ پرست عناصر کو بجائے لگام دینے کے حوصلہ افزائی کی جانے لگی،مالی تعاون دیا جانے لگا،مجرم جیل سے چھوٹ کر آیا تو ہار پھول لے کر اس کا استقبال کیا جانے لگا۔ماب لنچنگ کرنے والوں کو پارٹی میں جگہ دی جانے لگی۔ یہی وجہ ہے ملک کے ایک کونے میں ”دھرم سنسد“ کے نام سے پروگرام میں کھلے عام ایک کمیونٹی کی نسل کشی کا اعلان ہوتاہے۔کسی بڑے لیڈر کی طرف سے ابتدا میں کوئی بیان نہیں آیا۔ جب ماحول گرمایا تو زبان سے الفاظ اتنے ہلکے نکلے گویا پھول برسا رہے ہوں۔ ملک کی میڈیاتلوے چاٹنے میں لگی ہے چوتھا ستون خود غرضی اور یکطرفہ کوریج دے کر اپنی امیج کو خراب کرلیا ہے۔دھرم سنسد والے معاملے پر اتنی بڑی خاموشی مجرمانہ زمرے میں آتی ہے لیکن میڈیا کو اس سے غرض نہیں دولت کی جھلک پر اینکروں کے زبان کھلتے اور بند ہوتے ہیں۔مسلمانوں کی طرف سے معمولی باتوں پر بھی ڈیبٹ ہوتے ہیں،آنکھوں سے شرارے اور زبان سے بندوق کی گولیاں نکلتی ہے لیکن اگر مسلمانوں کے خلاف کوئی کتنا ہی سنگین بیان دیدے،دھرم سنسد کرلے میڈیا کی زبان پر تالے پڑ جاتے ہیں۔بھگوائیوں کی ہمت اتنی بڑھ گئی کے گاندھی جی کے قاتل کی ستائش کرتے ہیں پورا ملک یہ دیکھ کر دنگ ہے کہ باپو کے ملک میں باپو کے قاتل کی تعریف ہورہی ہے میڈیا اس پر کھل کر بولنے کو تیار نہیں۔ پولیس جس کا کام ماحول کو پرسکون رکھنا اور حالات کو بگڑنے سے روکنا، سماج کے بگڑے ہوئے لوگوں پر شکنجہ کسنا،قانون کی رکھوالی کرناہے وہی فرقہ پرستوں اور کلیدی عناصر کے ساتھ کھلے عام ہنستے مسکراتے نظر آتے ہیں۔ 

سماج میں کتنی نفرت بھردی گئی اس کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے ایک جنوری کو ”بلی بائے“ کے نام سے ایک موبائل ایپ لانچ ہوتا ہے جس میں مسلم نامورخواتین کی تصاویر لگاکر برائے فروخت لکھ دیا جاتاہے۔ ایسی حرکت کرنے والے اسی سماج میں رہنے والے ہیں جو بظاہر پرسکون اور دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا طوفان لیے بیٹھے ہیں۔بلی بائے ایپ کو بنانے والے ایک ماسٹر مائنڈ کو پولیس نے گرفتار کیا گیا ہے اس کا نام نیرج بشنوئی بتایاگیاہے جو کمپیوٹر سائنس سے بی ٹیک سکینڈ ایئر کا طالب علم ہے۔پولیس پوچھ تاچھ میں کئی راز کھولے ہیں اس نے بتایا ہے کہ اسے مخصوص مذہب سے شدید ناراضگی تھی اور وہ ان خواتین کو ٹارگیٹ کرتاتھاجو سوشل میڈیا میں مخصوص مذہب یا مخصوص آئیڈیا لوجی کو لے کر ایکٹیو رہتی تھیں۔ اس نے کہا مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔

آپ سمجھ سکتے ہیں کہ نفرت نے دلوں میں کتنے بغض و حسد بھر دیے ہیں کسی مخصوص طبقے کی خواتین کی ایکٹیویز بھی پسند نہیں،ایکٹیویزروکنے کے لیے ان کی تصاویر لگاکر برائے فروخت کا اشتہار لگادیا۔

ابھی دھرم سنسد اور بلی بائے ایف پر ہنگامہ جاری ہی تھا کہ ایک ویڈیو نے ہندو سماج میں بھرے جارہے زہریلی سوچ کو ظاہر کردیا۔سوشل

 میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کررہی ہے یہ ویڈیو چھتیس گڑھ کے ایک گاؤں کنڈی لونڈورا کی بتائی جارہی ہے جو پانچ جنوری کوشوٹ کیا گیا تھا جمعرات کو وائرل ہوا۔ بھگوا شرپسندوں کی جانب سے پورے گاؤں والوں کو ایک کھلی جگہ جمع گیا باضابطہ لاوڈاسپیکر لگا کر پورے گاوں کے ہندوں کو قسم کھلاکر اس بات پر آمادہ کیا گیاکہ مسلمانوں کا سماجی اور معاشی بائیکاٹ کریں گے۔ویڈیو میں کہاجارہاہے کہ”آج سے ہم ہندو یہ عہد کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو نہ اپنی زمین فروخت کریں گے اور نہ ہی اپنی زمین لیز پر دیں گے“۔ویڈیو میں گاؤں والوں کو یہ شپتھ دلانے والا آدمی کہتاہے کہ”ہم مسلمانوں کے یہاں نہ نوکری کریں گے اور نہ ہی مسلمانوں سے کوئی کام حاصل کریں گے“۔اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد پولیس نے کہا ہے کہ ہو اس پروگرام میں شامل افراد کی تلاش کررہی ہے اور اس معاملے کی جانچ کا حکم دیے دیا گیا ہے۔خبروں میں بتایاگیاہے کہ کچھ روز قبل اس علاقہ میں فرقہ وارانہ ٹکراؤ ہوگیا تھا جس کے بعد یہ پروگرام منعقد کیا گیا۔کچھ لو گ موقع سے فائدہ اٹھانا چاہاہے۔پولیس اس پروگرام کے انعقاد کرنے والوں کو تلاش کررہی ہے۔ 

تھوڑی دیر سوچئے ہمارا سماج کدھر جارہاہے۔ جو لوگ صدیوں سے مل جل کر بلا تفریق مذہب ایک ساتھ رہتے آئے،ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں شامل ہوتے رہے ہر تہوار میں خوشیاں مل جل کر منایاجاتا رہا،اب وہاں کی حالت یہ کردی گئی کہ ”مسلمانوں سے لین دین نہیں کریں گے،زمین جائداد ان سے خریدو فروخت نہیں کریں گے۔ پھیری والا اگر گاؤں میں آئے تو نام پوچھ کر سامان خریدیں گے۔یہ پورے طور پر ایک مخصوص طبقے کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش ہے۔ ملک کی زرخیز زمین کو بارود کے ڈھیر پر لاکر کھڑا کردیا گیا،نفرت کی بیج بودی گئی اب فصل کاٹی جارہی ہے جس میں محبت، الفت، بھائی چارگی، میل جول،گنگاجمنی تہذیب کو سر راہ روندے جارہے ہیں۔وحشیوں اور درندہ صفت لوگوں کو کھلی چھوٹ دیدی گئی کہ جوچاہے کرے۔قانون کا ہاتھ لمبا ضرور ہے لیکن ہر دل میں نفرت ہی پنپ رہے ہوں ہو سرکاری ادارہ بھی کیا کرے۔ یہاں محبت کے پھول کھلانے ہیں، میل جول کو فروغ دینا ہے،آپسی رنجش کو ختم کرکے مل جل کر جینے کا سبق سبق سکھانا ہے ورنہ نیرج وشنوئی جیسا نوجوان ناسور بن کرپورے سماج و معاشرے میں گند پھیلاتے رہیں گے اور فرقہ پرست کسی میدان میں جمع ہوکر مسلم برادری کے بائیکاٹ کا قسم کھا رہے ہوں گے۔   


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی