قوم مسلم آخر کیا کرے؟

 قوم مسلم آخر کیا کرے؟ 

از قلم ۔۔ افروز رضا مصباحی

مسلم رہنماؤں خود ساختہ دانشوروں اور میز کرسی لگا کر اے سی روم میں بیٹھے بعض قلم کاروں کی خوبی یہ ہوتی ہے مسلمانوں کے مفاد میں جو آواز اٹھائی جائے اسی کے خلاف آواز اٹھانے لگتے ہیں، اتنی دانشوری جھاڑ دیتے ہیں کہ آگے بڑھنے والا یہ سوچ کر پریشان ہوجاتا ہے کہ میں نے کتنی بڑی غلطی کردی کہ میری قوم میرے ہی پیچھے پڑ گئی؟ 

سیاست میں کوئی مسلم لیڈر آگے بڑھے تو غیروں سے پہلے اپنے ہی خیمہ کے دانش گرد حضرات نصیحت دینے لگتے ہیں کہ اپنے علاقے میں محدود رہنا چاہیے، ابھی مناسب وقت نہیں ہے، سیکولر پارٹیوں کو سپورٹ کرنا چاہیے، جو اپنے علاقے میں مضبوط نہیں وہ دوسرے اسٹیٹ میں کیا کر لیں گے، 

یونہی کسی مطالبے کو لے کر احتجاج و مظاہرہ کیا جائے تو پھر عقل عیار سو بھیس بدل کر نصیحت دینے لگے کہ اس سے کیا ہوتا ہے، اگر حالات خراب ہوئے تو ذمہ دار کون ہوگا ، نوجوانوں کی گرفتاری یا آپ کی گرفتاری ہوئی تو کون سامنے آئے گا؟ 

اگر کچھ کرنا ہی ہے تو سیاسی مضبوطی حاصل کریں اور حکومت سے مطالبات تسلیم کروائیں ۔

دانش گردی کا رو پ نہایت بھیانک ہوتا ہے، سیاست میں کوئی کوشش کرے تو وقت "مناسب"نہ ہونے کا فرمان، سماجی طور پر کچھ کرے تو سو الزام ۔

 قوم کے پچھڑنے اور سیاست میں ناکامی کی وجہ یہی ہوتی ہے۔

حکومت اور میڈیا کے کیمرے اسی احتجاج و مظاہرہ کو اہمیت دیتے ہیں جس میں توڑ پھوڑ، لوٹ مار، انسانی جان کا اتلاف ہو، اگر یہ چیزیں نہ ہو تو حکومت کے نزدیک احتجاج و مظاہرہ کی کوئی اہمیت نہیں، نیشنل میڈیا آپ کو کوریج نہیں دے گی، آپ کے مطالبات پر گرما گرم بحث نہیں ہوگی، الیکٹرانک میڈیا کو چینل چلانا ہے، حکومت کو پبلک کے سامنے یہ باور کرانا ہے کہ نقض امن کے خاطیوں کو بخشا نہیں جائے گا، جو ذمہ دار ہیں ان پر فرد جرم عائد کیے جائیں گے۔ 

حکومت کو اپنی کار کردگی دکھانے کے لئے کوئی ان ہونی واقعہ چاہیے، میڈیا والوں کو مرچ مسالہ والا ایشو چاہیے ۔حکمراں طبقہ ایشو چاہتے ہیں اگر نہ ہو تو کراے کے لوگوں کے ذریعہ ماحول بناتے ہیں پھر اس پر سیاست کی روٹی سینکتے ہیں ۔

پر امن مظاہرے ہوتے رہتے ہیں لیکن بحث کا موضوع نہیں بنتا، کسی بڑے لیڈر کا بیان نہیں آتا ۔

رہی بات احتجاج و مظاہرہ میں نقصان اور اتلاف کا مسئلہ تو خود پر امن مظاہرے کرتے ہیں وہ ایسا نہیں کرتے خاص کر مسلم کمیونٹی تو نہیں کرے گی، ان کے درمیان اجنبی لوگ شامل ہو کر فرقہ پرستوں اور حکومت کو کارروائی کا موقع دیتے ہیں ۔

12 /نومبر کے پر امن احتجاج پر کوئی بحث و مباحثہ نہ ہوتا، میڈیا میں بالکل نام چرچا نہ ہوتا اگر ناندیڑ، مالیگاؤں اور امراوتی میں پتھراؤ، لوٹ مار، پولیس کے لاٹھی چارج کی اگر خبر نہ ہوتی۔

قوم کے مفاد میں کام کرنے والے پریشان ہیں کہ ایسا کیا کریں جس سے دانشوروں کا کلیجہ بھی ٹھنڈا ہو اور قومی و ملی کام بھی ہوجائے ۔

سیاست میں نہ جائیں کہ وقت مناسب نہیں ہے، بند کا اعلان نہ کریں کہ بجائے فائدہ کے نقصان ہے، اپنے مطالبے کی تکمیل کے لئے احتجاج ومظاہرہ نہ کریں کہ ہمیں ہی مشکلات اور دشواریوں کا سامنا ہوگا ۔

حالانکہ پوری قوم دیکھ رہی ہے کہ جسے سیکولر پارٹی یا لیڈر کہتے ہیں وہ صرف الیکشن کے زمانے میں سادگی اور سیکولر کا چولا ڈالے ہوتے ہیں، الیکشن ختم ضرورت ختم ۔اب کوئی ہندو ہے کوئی دلت اور کوئی مسلمان ۔

الیکشن کے موقع پر ہوشیار زیرک اور قومی و ملی درد رکھنے والے حالاتِ زمانہ کو سمجھنے والے لیڈر کو شکست سے دوچار کرنے والے یہی مشورہ دینے والے دانش گرد ہوتے ہیں جس کے نایاب تجزیے اور مشورے قوم کی نیا کر کسی لیڈر کا چاپلوس بن جاتے ہیں  اس کے مریضانہ مشورے کا خمیازہ پوری قوم بھگتی ہے ۔

جو راہ منزل کی طرف جاتا ہے اس راہ پر اپنوں میں سے ہی لٹیرے، کند ذہن، آوارہ فکر، خوفزدہ لوگ، پست ہمت، نادر مشورہ دینے والے بزدلی میں یگانہ افراد بیٹھے ہیں جو نہ خود آگے بڑھ کر قوم کی فلاح و بہبود کا کام کرسکتے ہیں نہ دوسروں کو آگے بڑھتے دیکھ سکتے ہیں، دوسروں کی چھتر چھایا ہی ان کی کامیابی کی معراج، اغیار کی قدم بوسی منزل مقصود اور غلامی ان کا مقدر ہے ۔

ڈاکٹر اقبال نے سچ کہا:

کرسکتے تھے جو لوگ زمانے کی امامت

وہ کہنہ دماغ زمانے کے ہیں پیرو

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی