جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم دلائل کی روشنی میں

 جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم دلائل کی روشنی میں 

از:محمد افروز رضا مصباحی

اللہ  تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:( قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-) ترجمۂ:تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں۔(یونس :58)ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:

وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ۠(۱۱) ( والضحٰی:11) 

ترجمۂ: اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔  

ماہ ربیع الاول جلوہ فگن ہے ۔اس ماہ کی بارہ تاریخ کو مختلف بلاد و امصار عرب و عجم کے خوش نصیب مسلمان نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی یوم پیدائش کی مناسبت سے خوشیاں مناتے ہیں، گھروں کو سجاتے ہیں، گاؤں محلوں میں روشنی کا انتظام کرتے ہیں، جھنڈے لگا تے ہیں، یکم ربیع الاول سے بارہ تاریخ تک فاتحہ، نیاز میلاد خوانی، نعت رسول کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں ۔بارہ تاریخ کو اپنی سہولت و آسانی کے اعتبار سے صبح یا شام میں جلوس میلاد النبی نکال کر شہروں کے مختلف علاقوں سے گشت کرتے ہوئے کسی ایک مقام پر جمع ہوتے ہیں، دعا ہوتی پھر سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ۔

مسلمانوں کا ایک طبقہ اسے کار مستحب سمجھ کر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں تشریف آوری کی خوشی یہ سارے امور انجام دیتے ہیں ۔گرچہ یہ نئی چیز ہے خیر القرون میں نہیں پائی گئی تاہم امر مستحبات کے بجالانے میں مضائقہ نہیں سمجھتے ۔دلائل ان کے پاس ہے ۔اور مذکور دونوں آیات کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں، ساتھ ہی مندرجہ ذیل حدیث بھی بطور استدلال پیش کرتے ہیں کہ  حدیث پاک میں نئی اور اچّھی چیز ایجاد کرنے والے کو تو ثواب کی بشارت ہے۔ چنانچہ مسلم شریف میں ہے: 

”مَنْ سَنَّ في الإسلامِ سنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أجْرُهَا، وَأجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَيرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورهمْ شَيءٌ، وَمَنْ سَنَّ في الإسْلامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيهِ وِزْرُهَا، وَ وِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ، مِنْ غَيرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أوْزَارِهمْ شَيءٌ‘‘ 

ترجمہ: جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے تو اس پر اسے ثواب ملے گا اور اس کے بعد جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے تمام کے برابر اس جاری کرنے والے کو بھی ثواب ملے گا اور ا ن کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہوگی۔ اور جو شخص اسلام میں بُرا طریقہ جاری کرے تو اس پر اسے گناہ ملے گا اور اس کے بعد جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے ان سب کے برابر اس جاری کرنے والے کو بھی گناہ ملے گا اور ان کے گناہ میں بھی کچھ کمی نہ ہوگی۔(مسلم، حدیث:1017)

مسلمانوں کا یہ طبقہ اسلاف کرام کے ارشادات کو بھی بطور دلیل پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں، بارہ ربیع الاول کی اپنی اہمیت و فضیلت ہے اس سے انکار ممکن نہیں ۔جیسا کہ 

امام جمالُ الدّین الکتانی لکھتے ہیں:’’حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت کا دن نہایت ہی معظّم، مقدّس اور محترم و مبارَک ہے۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کا وجود پاک اتّباع کرنے والے کے لئے ذریعۂ نجات ہے جس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا اس نے اپنے آپ کو جہنّم سے محفوظ کرلیا۔ لہٰذا ایسے موقع پر خوشی کا اظہار کرنا اور حسبِ توفیق خرچ کرنا نہایت مناسب ہے۔“(سبل الہدیٰ والرشاد،ج1،ص364)

مسلمانوں کا دوسرا طبقہ میلاد رسول، جلوس محمدی، جھنڈے پھرارے، گلی محلوں کو سجانے، جلوس نکالنے کو بدعت گمراہی کہتے ہیں،  بعض لوگ کہتے ہیں کہ جشنِ ولادت نہ تو حضور  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے منائی نہ ہی خلفائے راشدین میں کسی نے منائی لہٰذا یہ بدعت ہے اور حدیث میں ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے جس کا انجام جہنّم ہے۔

اعتراض کا مدار زمانہ رسول، زمانہ خلفاء راشدین میں عید میلاد رسول منانے کا ثبوت نہ ہونے پر ہے، جسے کل بدعۃ ضلالۃ "والی حدیث سے اپنی بات مدلل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اسی بنیاد پر جشن ولادت رسول کے منائے جانے کو ناجائز تک لکھ دیا ۔

مختصر میں اس کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔

اولاً یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا ہر نئی چیز بدعت اور ضلالت پر مبنی ہوتی ہے جو جہنم میں لے جانے والی ہوتی ہے؟ 

اس بارے میں علماء اسلام نے ضابطے متعین کیے ہیں ۔کسی کام کے ناجائز ہونے کا دارومدار اس بات پر نہیں کہ یہ کام حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  یا صحابہ ٔکرامعلیہمُ الرِّضوان  نے نہیں کیا بلکہ مدار اس بات پر ہے کہ اس کام سے  اللہ  اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے منع فرمایا ہے یا نہیں ؟ اگر منع فرمایا ہے تو وہ کام ناجائز ہے اور منع نہیں فرمایا تو جائز ہے۔ کیونکہ فقہ کا یہ قاعدہ بھی ہے کہ ’’الاصل فی الاشیاء الاباحۃ‘‘ ترجمہ: تمام چیزوں میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح ہیں۔ یعنی ہر چیز مباح اورحلال ہے ہاں اگر کسی چیز کو شریعت منع کردے تو وہ منع ہے، یعنی ممانعت سے حرمت ثابت ہوگی نہ کہ نئے ہونے سے۔ یہ قاعدہ قرآنِ پاک اور احادیثِ صحیحہ و اقوالِ فقہا سے ثابت ہے۔


اور یہ کہنا کہ ’’ہرنیا کام گمراہی ہے‘‘ دُرست نہیں کیونکہ بدعت کی ابتدائی طور پر دو قسمیں ہیں بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیّئہ۔ بدعتِ حسنہ وہ نیا کام ہے جو کسی سنّت کے خلاف نہ ہو جیسے مَوْلِد شریف کے موقع پر محافلِ میلاد، جلوس، گھروں کو سجانا ،سالانہ مدارس اسلامیہ یا کسی دینی تنظیم و تحریک جلسے بے شمار امور و معاملات ہیں جنہیں مسلمان بغیر کسی روک ٹوک کے کرتے ہیں 

بدعت کی دوسری قسم بدعت سیئہ ہے۔

بدعتِ سیّئہ وہ ہے جو کسی سنّت کے خلاف یا سنّت کو مٹانے والی ہوجیسے غیرِ عربی میں خُطبۂ جُمعہ و عیدین۔

 شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’معلوم ہونا چاہیے کہ جو کچھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نکلا اور ظاہر ہوا بدعت کہلاتا ہے پھر اس میں سے جو کچھ اصول کے موافق اور قواعد سنّت کے مطابق ہو اور کتاب و سنّت پر قیاس کیا گیا ہو بدعتِ حسنہ کہلاتا ہے اور جو ان اصول و قواعد کے خلاف ہو اسے بدعتِ ضلالت کہتے ہیں۔ اور کل بدعۃ ضلالۃ  کا کلیہ اس دوسری قسم کے ساتھ خاص ہے۔‘‘ (اشعۃ اللمعات مترجم،ج1،ص422)

جلوس محمدی کے جواز کے قائلین سے کہنا یہ ہے کہ آپ ضرور منائیں گھروں کو سجائیں، جھنڈے لہرائیں ،نعرہ لگائیں لیکن حدود شرع باقی رہے ۔نماز کے اوقات میں مائک کا استعمال بند کرکے نماز ادا کی جائے، جو جھنڈے لگائیں یا تو سادے کپڑے کے ہوں اگر مقدس مقامات کی تصاویر، آیت کریمہ، اردو عربی اشعار چھپے ہوں تو اس کا ادب و احترام حد درجہ کریں، زمین پر نہ گرنے دیں، ناپاک جگہوں میں نہ پھینکیں، ڈی جے کی آواز ضرر رساں ہے اسے ہرگز استعمال میں نہ لائیں، گانے کی دُھن، نعت کے اشعار پر ناچنا، مٹکنا، بے ہنگم شور مچانا، خلاف ادب اور جلوس محمدی کے روح کے منافی ہے اس سے ہر حال میں بچنے کی کوشش کریں ۔

ادب و احترام کا خیال رکھیں ۔غلامان نبی کی روش یہ ہونی چاہئے کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے جلوس محمدی اور محافل میلاد کا التزام کریں ۔

عدم جواز کے قائلین کو چاہئے کہ صرف انہیں دلائل کو پیش نظر نہ رکھیں جن میں عدم جواز کو ذکر کیا گیا ہے بلکہ جواز کے قائلین کے دلائل کو بھی مد نظر رکھیں ۔علمائے محققین کا ایک بڑا طبقہ محافل میلاد اور جلوس محمدی کے قائل ہیں ان دلائل بھی فراہم کرتے ہیں ۔اس عمل کو مستحبات سے مانتے ہیں، دلائل و براہن سے مبرہن گفتگو کرتے ہیں، کتب اسلاف قدیم و جدید موجود ہے ۔ان تمام دلائل سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک مخصوص نظریے کے علماء کے اقوال کو پوری قوت سے نافذ کرنے کی کوشش قرین قیاس  نہیں، یہ عمل دیانتدار و انصاف کے بھی خلاف ہے ۔اعمال کی خرابی کو عمل مستحبات کی مناہی میں پیش کرنا زیادتی ہے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی