اپریل فول :مغرب کی نقالی
یکم اپریل کو دنیا بھرمیں مذاق کے نام پر دروغ گوئی کو فروغ دیاجاتاہےجوایک صحت مندمعاشرہ کے لیے کسی طرح درست نہیں
از قلم: محمد افروز رضا مصباحی
کلینڈر پر نظر کریں تو بہت سے یوم کسی خاص کام ،اشیاء اور کسی خاص فرد سے منسوب ہوتے ہیں ۔بعض ایام تو وہ ہیں جو اقوام متحدہ کی طرف سے ایجاد کیا گیا بعض ایام وہ ہیں جو ہر ملک میں وہاں کے رسم و رواج کے مطابق منائے جاتے ہیں۔ مادر ڈے ،فادر ڈے ، ارتھ ڈے ،اینیمل ڈے ،وومن ڈے ،چلڈرن ڈے وغیرہ ڈیز ہیں جو کسی خاص چیز سے منسوب ہے ۔اس دن مخصوص ڈے کے مطابق پروگرام منعقد ہوتے ہیں اور ثقافتی پروگرام وغیرہ بھی ترتیب دیے جاتے ہیں۔
یکم اپریل کو تقریباً معلوم دنیا میں ’’اپریل فول ‘‘ یعنی یوم بیوقوف کے طور پر منایا جاتاہے۔اس تاریخ کو لوگ ایک دوسرے کو بیوقوف بناتے ہیں شخص مذکور کے بیوقوف بننے کے بعد باور کیا جاتاہے کہ میں نے اسے بیوقوف بنادیا ۔وہ شخص کامیاب اور ہوشیار سمجھا جاتاہے جو دوسرے کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوجائے ۔کچھ ایسے بھی جوان مردوخواتین ہیں جو اس تاریخ کا انتظار کرتے ہیں کسی خاص فرد کو ٹارگیٹ پر رکھتے ہیں کہ اسے بیوقوف بنانا ہے۔یوم بیوقوف پر شرعی و سماجی جائزہ پیش کرنے سے قبل دیکھتے ہیں یکم اپریل کی حقیقت کیا ہے کس طرح یہ شروع ہوا۔
اپریل لاطینی زبان کے لفظ Aprilis یا Aprire سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے پھولوں کا کھلنا، کونپلیں پھوٹنا، قدیم رومی قوم موسم بہار کی آمد پر شراب کے دیوتا کی پرستش کرتی اور اسے خوش کرنے کے لیے لوگ شراب پی کر اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے یہ جھوٹ رفتہ رفتہ اپریل فول کا ایک اہم حصہ بلکہ غالب حصہ بن گیاانسائیکلو پیڈیا انٹرنیشنل کے مطابق مغربی ممالک میں یکم اپریل کو عملی مذاق کا دن قرار دیا جاتا ہے اس دن ہر طرح کی نازیبا حرکات کی چھوٹ ہوتی ہے اور جھوٹے مذاق کا سہارا لے کر لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے
انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا نے اس کی تاریخی حیثیت پر مختلف انداز سے روشنی ڈالی ہے۔ بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترہویں صدی کا آغاز جنوری کی بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا۔ اس مہینے کو رومی اپنی دیوی وینس کی طرف منسوب کر کے مقدس سمجھا کرتے تھے۔ چونکہ یہ سال کا پہلا دن ہوتا تھا، اس لیے خوشی میں اس دن کو جشن و مسرت کے طور پر منایا کرتے تھے اور اظہار خوشی کے لیے آپس میں استہزاء و مذاق کیا کرتے تھے۔ یہی چیز آگے چل کر اپریل فول کی شکل اختیار کر گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ 21 مارچ سے موسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوجاتی ہیں۔ ان تبدیلیوں کو بعض لوگوں نے کچھ اس طرح تعبیر کیا کہ قدرت ہمارے ساتھ مذاق کر کے ہمیں بے وقوف بنا رہی ہے (یعنی کبھی سردی ہوجاتی ہے تو کبھی گرمی بڑھ جاتی ہے، موسم کے اس اتار چڑھاؤ کو قدرت کی طرف سے مذاق پر محمول کیا گیا) لہذا لوگوں نے بھی اس زمانے میں ایک دوسرے کو بے وقوف بنانا شروع کر دیا۔(انسائیکلو پیڈیا دائرۃ المعارف)
مغرب کی نقالی میں مشرقی ممالک میں بھی یہ دن منایاجانے لگاہے۔جھوٹ فریب اور دغا بازی کو فن سمجھنے والی قوم کے علاوہ وہ قوم جو جھوٹ کو گناہ ، خطا اور لائق تعذیر سمجھتی ہے وہ بھی اس عالمی وبامیں گرفتار ہے۔حد تو یہ ہے کہ اس دن صریح جھوٹ بولنے کو لوگ جائز سمجھتے ہیں، جھوٹ کو اگر گناہ سمجھ کو بولا جائے تو گناہِ کبیرہ ہے اور اگر اس کو حلال اور جائز سمجھ کر بولا جائے تو اندیشہٴ کفر ہے۔ جھوٹ کی برائی اور مذمت کے لیے یہی کافی ہے کہ قرآن کریم نے ”لعنت الله علی الکاذبین“ فرمایا ہے، گویا جو لوگ ’’اپریل فول‘‘ مناتے ہیں وہ قرآن میں ملعون ٹھہرائے گئے ہیں، اور ان پر خدا تعالیٰ کی، رسولوں کی، فرشتوں کی، انسانوں کی اور ساری مخلوق کی لعنت ہے۔
جھوٹی باتیں پھیلانے اور دوسرے کے ساتھ از راہ مذاق بھی جھوٹ بولاجائے تو اس میں خیانت کا بھی گناہ ہے، حدیث میں ہے:
”کبرت خیانةً أن تحدث أخاک حدیثاً هو لک مصدق وأنت به کاذب (رواه أبوداود)
ترجمہ :بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایک بات کہو وہ تمہیں سچا سمجھےاورتم جھوٹ بول رہے ہو۔
خیانت ایک عظیم گناہ ہے ،ایک مسلمان اچھی طرح سمجھتاہے کہ خیانت بُرا ہے۔اس کا وبال بھی بُرا ہے گویاجانے انجانے میں ایک ایسی قبیح حرکت کربیٹھتے ہیں جس کی سزا کو خود دعوت دیتے ہیں۔
اسی طرح بغور دیکھیں تو اپنے بھائی کے ساتھ دھوکہ کرنا بھی ہے ۔دھوکہ کسی کو بھی دینا کسی طرح درست نہیں۔جس کسی کے ساتھ دھوکہ کریں بہرحال اس کے اعتبار اور اعتماد کو ٹھیس پہنچاناہےیہ گناہ کبیرہ ہے۔اللہ کے پیارے حبیب ﷺارشاد فرماتے ہیں:منْ غشَّنا فليسَ منَّا‘‘. (مسلم)
ترجمہ:جو شخص ہمیں (یعنی مسلمانوں کو) دھوکا دے، وہ ہم میں سے نہیں۔
اگر آپ کسی سے کوئی جھوٹ بات کہیں تو یہ ایک مسلمان کو تکلیف دینا ہوا۔ بلکہ بلاوجہ غیر مسلم کو بھی تکلیف دینا روا نہیں چہ جائیکہ کسی کلمہ گو کی دل آزاری کی جائے کہ یہ بھی جرم ہے خداوند قدوس نے کسی مومن یامومنہ کو تکلیف دینے کو سخت ناپسند کیا ہے۔کلام مجید میں فرمایاگیا:
وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا (الاحزاب:۵۶ )
ترجمہ: ’’بے شک جو لوگ ناحق ایذا پہنچاتے ہیں موٴمن مردوں اور عورتوں کو، انہوں نے بہتان اور بڑا گناہ اٹھایا‘‘۔
اپریل فول منانا گم راہ اور بے دین قوموں کے ساتھ تشابہ ہے۔یہ یاد رہے کہ اللہ کے حبیب ﷺ نے غیر قوم سے مشابہت اختیار کرنے پر جو وعید سنائی اسے اگر ذرا بھی توجہ کے ساتھ سنی یا پڑھی جائے تو ہر گز دیگر اقوام و ملل کے طریقے کو نہیں اپنائیں گے۔رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:’’من تشبہ بقوم فھو منھم‘‘ جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ ان ہی میں سے ہوگا۔
ہمارے دین نے دوسروں کے حقوق کی جتنی پاسداری کی ہے دیگر اقوام سوچ بھی نہیں سکتی ۔ عزت نفس بہت اہم شئی ہے۔ یونہیں ایسا مذاق جس سے دل آزاری ہو یا شخص مذکور خوف زدہ ہوجائے ،اسلام نے منع کیا ہے۔حضرت ابن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کا بیان ہے کہ وہ حضرات رسول ﷺکے ساتھ سفر میں تھے، اس دوران ان میں سے ایک صحابی سو گئے تو ایک دوسرے صحابی اُن کے پاس رکھی اپنی ایک رسی لینے گئے، جس سے وہ گھبرا گئے (یعنی اس سونے والے کے پاس رسی تھی یا اس جانے والے کے پاس تھی اس نے یہ رسی سانپ کی طرح اس پر ڈالی وہ سونے والے اسے سانپ سمجھ کر ڈر گئے اور لوگ ہنس پڑے) تو رحمت دوعالم ﷺنے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ دوسرے مسلمان کو ڈرائے۔(ابوداؤد۔ حدیث: 5004)
مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺنے یہ سنا تو یہ فرمایا: اس کامطلب یہ ہے کہ ہنسی مذاق میں کسی کو ڈرانا جائز نہیں کہ کبھی اس سے ڈرنے والا مرجاتا ہے یا بیمار پڑ جاتا ہے، خوش طبعی وہ چاہیے جس سے سب کا دل خوش ہو جائے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسی دل لگی ہنسی کسی سے کرنی جس سے اس کو تکلیف پہنچے مثلاً کسی کو بے وقوف بنانا، اس کے چَپت لگانا وغیرہ حرام ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج5، ص270)
اوپر قرآن و حدیث کی روشنی میں جھوٹ ،خیانت ،دھوکہ اور ایذا رسانی کے بارے میں ارشادات پڑھ چکے ہیں ۔اب ذرا سوچیے یکم اپریل کو ہمارا کیا حال ہوتاہے؟ کیسے کیسے جھوٹ گڑھے جاتے ہیں،غلط خبریں دی جاتی ہیں، موبائل کا زمانہ ہے کیسے کیسے غلط خبریں پھیلائی جاتی ہیں ،پرسنل میں کیسے میسج بھیج کر تماشے دیکھے جاتے ہیں،یہ کوئی ڈھکی چھپی باتیں نہیں ہیں،چند لمحے کی مسکراہٹ یا دل لگی کے لیے کسی سے غلط بات کہنا ، کسی عزیز کے حادثے کی خبر پہنچانا کیسا سنگین مسئلہ پیدا کردیتاہے۔ خبر دینے والا یہ سوچ کر خوش ہوجاتاہے ’’بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوگیا۔یاد رہے دنیا میں بھی ’’جیسا کروگے ویسا بھروگے‘‘ کا منظر دیکھنے کو ملتاہے آپ کسی کو بیوقوف بنارہے ہوں کوئی آپ کو احمق بنانے کی ترکیب سوچ رہاہوگا ۔دنیا گول ہے جو کیا جائے وہ گھوم کر اس کا نتیجہ اس تک پہنچتا ہے جس نے شروع کیا تھا۔لہذا اغیار کی نقالی ، مغرب کی بیہودہ طریق کو اپنا نے میں کوئی خیر نہیں،دنیا میں کرنے کے بہت سے کام ہیں وہ کام کیا جائے جس سے اپنا ،والدین کا اور ملک کا نام روشن ہو۔ایسا کام جس سے شرانگیزی ہوتی ہو،انفرادی یااجتماعی نقصان کا خدشہ ہو اس سے دور رہاجائے ۔غیر کی نقالی گڑھے میں گراتی ہے سربلندی عطا نہیں کرتی ۔