اے گروہ مسلمین! کیا علما کے مفلوک الحالی کی کچھ خبر ہے؟


علمائے دین کی مالی حالت کی گِرتی ساکھ پر قوم مسلم سے اپیل کرتی ایک چشم کشا تحریر

ازقلم۔۔۔محمد افروز رضا مصباحی،

سال گزشتہ کے ماہ رجب سے لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوا جس نے لوگوں کو گھروں میں بیٹھا دیا، مزدور مزدوری سے گئے، ٹیچر تنخواہ سے محروم ہوئے،بعض ملازمین ملازمت سے گئے، کاروباری تجارت سے گئے، بدحالی نے پیر پسارا تو ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا سفر مزدورں نے بائیک، ٹرک، سائیکل اور پیدل چل کر اپنے اپنے گھروں کو پہنچے۔پردیسی زندگی نے ان کی خوشی، وقت کا کھانا، سونے کی جگہ کو چھین لی، شہر میں رہتے تو بھوکے مرتے سوچا چلو اپنے گاؤں، مرنا جینا اپنوں کے درمیان ہوگا ارتھی اٹھا کر شمشان یا پنجری اٹھا کر قبرستان تو پہنچا دیے جائیں گے۔بھوک کے سامنے قومی لیڈران کی لچھے دار گفتگو،من کی بات اور دانشمندوں کے منطق و فلسفہ کے سارے جزیے پھیکے پڑجاتے ہیں، لاک ڈاؤن کی سختی، پولیس کی مار کا خوف بھی بھوک کو نہیں مٹاتی۔

کرونا وبا سے ہر طبقہ متاثر ہوا ہے،اسکول و کالج کے معلمین ومدرسین بھی شامل ہیں،ان متاثر ہونے والوں میں علماء کا بھی طبقہ ہے۔ علماء کرام کے ذرائع آمدنی کا دواہم ذریعہ ہے، مدارس اور مساجد۔مدارس اسلامیہ دیگر اسکول و کالج کی طرح بند ہیں، حکومت کے جاری کردہ گائیڈ لائن کی وجہ سے مدارس کا کھلنا مشکل ہے جب تک سرکاری سطح پر اجازت نہ مل جائے۔علماء کا جو طبقہ صرف مدارس سے وابستہ تھے وہ پچھلے سال سے بے روزگار ی کی مار جھیل رہے ہیں۔علماء کا دوسرا طبقہ مساجد کے امامت و مؤذنی سے وابستہ ہیں، مساجد میں چند افراد ہی سہی نماز پڑھ رہے ہیں ان کو تنخواہ دی جارہی ہے، بعض مقامات پر آدھی تنخواہ پر بھی گزارا کروایا جارہا ہے۔بعض ایسی بھی خبریں ملی کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے امامت ومؤذنی کرکے گزارا کرنے والے علماء کو ذمہ داری سے یہ کہہ کر فارغ کردیا گیا کہ ہم تنخواہ نہیں دے سکتے آپ اپنا انتظام کر لو۔بعض حاسدین نے لاک ڈاؤن کے بہانے علماء کو ذریعہ معاش سے محروم کرنے میں خاصا رول ادا کیا۔یہ طبقہ بھی کوئی پرسکون یا تنخواہ کے اعتبار سے متمول نہیں ہیں۔تیسرا طبقہ مساجد و مدارس دونوں سے وابستہ تھے۔مدارس بند ہونے سے مساجد کی تنخواہ سے کسی طرح گزارا ہورہا ہے۔

مدارس اسلامیہ پرائیویٹ ادارے ہوتے ہیں جہاں پہلے چندہ کے ذریعہ رقوم جمع کیے جاتے ہیں پھر سال بھر تنخواہیں اسی میں سے دیے جاتے ہیں۔چندہ کی آمدنی اور اخراجات مدارس کے تعلیمی سال کے اعتبار سے ہوتا ہے۔لیکن دو سال سے پورا نظام بگڑ چکا ہے۔آمدنی رُک گئی ہے۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے مدارس کے سفراء اور جو علماء چندہ کی غرض سے نکلتے تھے وہ نہ نکل سکے۔حالات اینجا رسید کے جمع شدہ رقومات ختم ہوگئے۔مدارس کے ذمہ داران دو صورت میں ظاہر ہوئے۔ایک وہ گروہ جو مدرسہ بند ہونے کے باوجود کہیں پوری کہیں نصف تنخواہ دے کر علماء کرام کی اشک سوئی کرتے رہے۔دوسرا گروہ وہ سامنے آیا کہ ہم تنخواہ کہاں سے دیں جب مدرسہ بند ہے تو تنخواہ نہیں دیں گے۔بعض مدارس نے بھی اساتذہ کو ذمہ داریوں سے برخواست کردیا کہ یہ رہیں گے تو تنخواہ کا مطالبہ کریں گے۔

لاک ڈاؤن سے پہلے تک یہ قاعدہ مسلمہ سمجھاتا تھا کہ غیر عالم حالات کی مار نہ سہہ کر خود کشی جیسے اقدام کر جاتے ہیں جبکہ کوئی عالم کتنا ہی کسمپرسی اور بدحالی کا شکار کیوں نہ ہو اللہ سے خوف کھاتے ہوئے خود کشی کبھی نہیں کرتا۔لیکن لاک ڈاؤن نے یہ بھرم توڑ دیا چند ماہ قبل یوپی کے غازی پور سے تعلق رکھنے والے حافظ قرآن نے بڑی بے بسی اور بیکسی کے عالم میں خودکشی جیسے ناجائز قدم اٹھانے ہر مجبور ہوگئے۔ہمارے لئے ان کا اٹھایا گیا قدم '' ناجائز '' ہے تاہم اس حافظ قرآن ایک مسجد کا امام سبکدوشی کے سبب کس بے رحمانہ دور سے گزر رہا تھا یہ وہی جانتا ہے۔ایک اور واقعہ روشنی میں آیا ہے کہ ایک حافظ مسجد سے نکال ہوا شخص بچوں کے روتے بلکتے حالت کی تاب نہ لاکر گرودوارہ سے کھانا لاکر کھلانے پر مجبور ہوا۔

اس خود دارطبقہ کے کچھ ہی واقعات ہیں جو روشنی میں آگئے ورنہ یہ خود دار طبقہ بھوک و افلاس کو برداشت کرکے بھی اپنے مقتدیوں کو صحت و سلامتی اور کثرت رزق کی دعا دیتا ہے۔قوم کے بچوں کی زندگی سنوارنے بنانے والے، حافظ قرآن بنانے والے، خام مال کو قوم کا رہنما و پیشوا بنانے والے، پنج وقتہ نماز کی امامت کرنے والے ہی بے کسی اور بے بسی کی مار جھیل رہے ہوں، اپنے بیوی بچوں کی پرورش کرنے سے عاجز ہوں،بھوک سے بلکتے بچوں کی تڑپ دیکھ کر گرود وارہ سے کھانا لاکر کھلانے پر مجبور ہوں تو سوچا جاسکتا ہے قوم مسلم نے اپنے علماء کے ساتھ کس قدر زیادتی کی ہے۔ قوم کی بے حسی کا عالم یہ ہوچکا ہے کہ اولاً مولوی مولانا اور امام صاحب سے ان کی ضرورت کے بارے میں پوچھتی نہیں ہے۔اور جب پوچھے گی تو یا تو ماضی کے بارے میں یا مُستقبل کے بارے میں،حال سے بے خبری ان کو اچھی لگتی ہے ورنہ امام صاحب نے کوئی فرمائش کردی تو دو روز نماز پڑھنے نہیں آئیں گے۔

سماج و معاشرہ کے فعال لوگ سماجی خدمت کے لئے کتنی ہی فلاحی ادارے،سوسائٹی اور این جی اوز کھول رکھے ہیں، ان کے انکم کا ذریعہ حکومت سے فلاحی کاموں کے نام پر فنڈ اٹھاناہے، یونہی متمول اور صاحب خیر حضرات سے دونیشن لے کر اپنی تنظیم و تحریک کو مضبوط و توانا کرتی ہے۔ان کے ادارے کے جانب سے جاری کردہ سماجی خدمات کے دائرے میں غریب، یتیم، بیوگان، غریب بچیوں کی شادی کے اخراجات، اسکول کے بچے بچیوں کے لئے اسکالرشپ، کاپی قلم، سلیبس کی کتابیں وغیرہ دیے جانے کا اعلان نامہ ہوتا ہے۔

لیکن حیرت انگیز طور پر کہیں مولوی مولانا، امام ومؤذن،خدام، دینی خدمت گاروں کا ذکر نہیں ہوتا، یہ دنیا جانتی ہے بلکہ تنظیم و تحریک، فلاحی ادارے چلانے والے یہی مساجد ومدارس کے ذمہ داران بھی عہدہ سنبھالنے ہوتے ہیں،کہ پرائیویٹ دینی مدارس کے اساتذہ، مساجد کے ائمہ، پانچ وقت اذان دینے والے مؤذنین کی تنخواہ قلیل در قلیل ہوتی ہے۔ضروریات زندگی ان سے بھی وابستہ ہیں، بیوی بچے، والدین چھوٹے بھائی بہن کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں، لیکن ان کے لئے کوئی اسکیم اور وظائف نہیں، بلکہ ستم دیکھیے کہ بعض ریاستی حکومت نے امام ومؤذن کو معمولی وظیفہ دینا شروع کیا تو کمیٹی کے ارکان کے تن بدن میں آگ لگ گئی، بعض وظائف پر قابض ہوگئے، کہیں تنخواہ میں جوڑ دیا، کہیں وقف بورڈ کے پیسے آنے پر تنخواہ کم کردیا، یعنی جس نہج سے دیکھیے ستم گری کے نمونے نظر آئیں گے۔

دنیاداروں کا ایک طبقہ بعض علماء کے کام سے ناآشنالوگ مشورہ اچھالتے رہتے ہیں کہ یہ لوگ قوم کے چندہ پر ہی پَلتے ہیں،اپنا کاروبار کیوں نہیں کرلیتے؟تو عرض یہ ہے کہ علماء اگر کاروبار کرنے لگ جائیں، دکان کھول کر بیٹھ جائیں، دکان دکان مال پہنچانے لگ جائیں، زراعت وکاشت کاری کرنے لگ جائیں تو پھر علوم اسلامیہ کی ترویج کیسے ہوگی؟ دین اسلام کی تبلیغ کا فریضہ کون ادا کرے گا؟ دین و مذہب اور مسلک کے نام پر اٹھنے والے فتنوں کی سرکوبی کون کرے گا، لوگوں کے اصلاح فکر و اعتقاد کی جانب کون توجہ دے گا، دینی تعلیم وتعلم کی اشاعت، نسل نو کی تربیت، امر بالمعروف نہی عن المنکر کی ذمہ داری، قرآن وحدیث کے معانی ومفاہیم، فقہ کی باریکیاں، کتابوں کے مغلقات کون سمجھائے گا؟ سب سے بڑی بات عوام کی جلی کٹی اور دلوں کو چھلنی کرنے والی بات کون برداشت کرے گا؟

ایک عالم سے مسجد ومدرسہ کی ذمہ داری، اپنے گھر کے اخراجات کی تکمیل کے لئے دکان داری، پھر دعوت وتبلیغ کے فریضہ انجام دینے کی امید چٹیل میدان میں مچھلی کی تلاش کے مثل ہے۔جو عالم و حافظ اپنی ضروریات کے لئے مسجد و مدرسہ سے الگ کام کرتے ہیں یہ ان کی دلچسپی اور چاہت ہے۔ہر عالم وحافظ کو یہ مشورہ دینا کہ مسجد ومدرسہ سے چپکے رہنا دانشمندی نہیں ہے، یہ مشورہ خود اصلاح کا متقاضی ہے۔

لہذا جو لوگ اس دور پُر فتن میں دینی مدارس ومساجد سے وابستہ رہ کر قوم کے دینی ضروریات میں مشغول ہیں، دعوت وتبلیغ، اشاعت دین وسنیت کے لئے خود کو وقف کر رکھا ہے ان کے دنیوی ضروریات کو پورا کرنا قوم کے اصحاب خیر پر لازم وضروری ہے۔تنظیم و تحریک کے ذمہ داران اپنے خدمات کے دائرہ کار میں تھوڑی وسعت پیدا کریں اور جس مدرس و امام و مؤذن کے بارے میں خبر ملے یا کوئی ایسا راستہ نکالیں تاکہ یہ طبقہ اپنی بدحالی کی خبر خاموشی سے کہہ سکیں،تو ایسی ترکیب بنائی جائے۔یہ طبقہ بڑا غیور اور خود دار ہے بھوک و پیاس برداشت کرکے عصر کی نماز،عشاکے کھانے سے محروم رہ کر فجر کی نماز بھی پڑھا دیتاہے۔ کوئی پوچھا تو ٹھیک ورنہ پانی  بسکٹ پر گزار ا کرنے والے آپ کے محلے کے امام و مؤذن یا دینی ادارہ کے مدرس مدرسہ بند ہونے سے یونہی وقت گزار رہے ہوں گے۔

علماء اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے ہوتے ہیں،نیابت رسول کا تاج ان کے سر باندھا گیاہے، قوم کی اصلاح وتربیت،دینی ضروریات کی تکمیل کا ان کو ذمہ دیاگیاہے یہ لوگ اسی وقت اپنا فریضہ انجام دے سکیں گے جب ان دنیوی ضرورتیں پوری ہورہی ہوں گی۔ اب قوم مسلم کو سوچنا ہے اپنے دینی رہبر و رہنما کے لیے کیا کچھ کرسکتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی